کمپنی کا نام ' البخاری کمپنی' رکھنے کا حکم
Question
کمپنی کا نام " البخاری کمپنی " رکھنے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ یہ تجارتی علامت (ٹریڈ مارک) کے طور پر رجسٹر ہے اور اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ کمپنی کا نام "البخاري" رکھنا اور اسے تجارتی علامت کے طور پر استعمال کرنا شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی گناہ یا ممانعت نہیں۔ البتہ اس سلسلے میں تجارتی ناموں اور ٹریڈ مارکس سے متعلقہ قوانین اور ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
تفاصیل:
تجارتی علامت(Trade Mark) کا مفہوم
علامت کے معنی ہیں: نشانی، اور اس کی جمع "عَلام" ہے۔ یہ اس نشانی کو کہتے ہیں جس سے کسی راستے کا پتا چلتا ہو، جیسے کوئی واضح نشان یا علامت۔ کہا جاتا ہے: "بین القوم أُعلُومَةٌ" یعنی ان کے درمیان ایک علامت ہے۔ اسی طرح علامت اُس حد یا نشانی کو بھی کہا جاتا ہے جو دو زمینوں کے درمیان فرق ظاہر کرے۔ یہ مفہوم ابو الحسن ابن سیدہ کی کتاب "المحکم والمحيط الأعظم" (2/176، دار الكتب العلمية) اور "المعجم الوسيط" (2/624، دار الدعوة) میں بیان کیا گیا ہے۔
مصر کے قانونِ حقوقِ ملکیتِ فکریہ (قانون نمبر 82، سن 2002ء) کی دفعہ 63 کے مطابق تجارتی علامت (Trade Mark) کی تعریف یہ ہے: یہ ہر وہ چیز ہے جو کسی پیداوار کو—خواہ وہ کوئی چیز ہو یا کوئی خدمت—دوسری مصنوعات سے ممتاز کرے۔ اس میں بالخصوص شامل ہیں: وہ نام جو منفرد انداز میں اختیار کیے گئے ہوں، دستخط، الفاظ، حروف، اعداد، خاکے، رموز، دکانوں کے نام، مہریں، اسٹیمپس، اور تصاویر ، اپھرے ہوئے نقوش، اور رنگوں کے ایسے مجموعے جو کسی مخصوص اور نمایاں شکل میں ہوں۔ اسی طرح ان تمام عناصر کا کوئی بھی مجموعہ، اگر اسے استعمال کیا جا رہا ہو یا استعمال کرنے کا ارادہ ہو، تو یہ یا تو صنعتی مصنوعات، زرعی پیداوار، جنگلات کی پیداوار، زمین سے حاصل شدہ اشیا، یا کسی بھی قسم کی بضاعة کو ممتاز کرنے کے لیے ہو، یا مصنوعات یا اشیا کے ماخذ، نوعیت، معیار، درجہ، ضمانت، یا تیاری کے طریقے کی نشاندہی کرے، یا کسی خدمت کے انجام دینے کی طرف اشارہ کرے۔ اور ہر صورت میں ضروری ہے کہ تجارتی علامت ایسی ہو جسے آنکھ سے دیکھا اور پہچانا جا سکے۔"
کمپنی کا نام " البخاری کمپنی " رکھنے کا حکم:
جہاں تک "البخاري" نام کا تعلق ہے، جو بطور تجارتی علامت استعمال کیا گیا ہو: تو عربی زبان میں "اسم" اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی مُسمّیٰ (جس پر نام رکھا جائے) کی طرف اشارہ کرے۔ بصری علماء کے نزدیک یہ لفظ "سُموّ" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی بلندی ہے، کیونکہ یہ اپنے مُسمّیٰ کو بلند اور نمایاں کرتا ہے۔ اور کوفی علماء کے نزدیک "اسم" کا ماخذ "وَسَم" ہے، یعنی نشانی لگانا، کیونکہ یہ نام مُسمّیٰ کی علامت ہوتا ہے۔ یہ تعریفیں امام کمال الدین انباری کی کتاب الإنصاف في مسائل الخلاف (1/8، المكتبة العصرية) اور محمد بن علی الصبان کی الرسالة الكبرى على البسملة (ص 22، المطبعة الخيرية) میں مذکور ہیں۔
اور "تسمیہ" کا مطلب ہے کسی معنی یا چیز کے لیے نام مقرر کرنا۔ کبھی "اسم" سے مراد خود اس کا مدلول لیا جاتا ہے۔ اور "مسمّیٰ" سے مراد وہ ذات ہوتی ہے جس پر نام رکھا جائے۔ اور تسمیہ سے مراد وہی الفاظ ہیں جن کے ذریعے کسی چیز کو اس کے نام سے پکارا جائے، اور کبھی اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی چیز کا ذکر اس کے نام سے کیا جائے، جیسے کہا جاتا ہے: "اس نے زید کا نام لیا اور عمر کا نہیں لیا"۔یہ وضاحت علامہ ابی البقاء الكفوی کی کتاب "الكليات" (ص 84، مؤسسة الرسالة) میں بیان کی گئی ہے۔
"اور نام کو مُسمّیٰ کے لیے مقرر کرنا" یعنی کسی لفظ کو اس خاص معنی پر دلالت کرنے والا بنانا۔
جہاں تک "البُخاري" کا تعلق ہے—(باء کے ضمہ اور خاء کے فتحہ کے ساتھ)—یہ نسبت اُس شہر کی طرف ہے جو ماوراء النہر میں واقع ہے اور جسے "بُخارىٰ" کہا جاتا ہے، جیسا کہ امام سمعانی نے "الأنساب" (2/107، مجلس دائرة المعارف العثمانية، حیدرآباد) میں ذکر کیا ہے۔ یہ شہر آج کے ازبکستان میں واقع ہے، اور وسطی ایشیا کے قدیم ترین اور مشہور تاریخی شہروں میں سے ایک ہے۔
اس شہر بخاریٰ سے ہر فن اور ہر علم کے بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے، اور انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک امام محمد بن اسماعیل البخاری ہیں، جو اس امت کے روشن ستارے اور اعلماءِ حدیث کے اماموں کے بھی امام ہیں۔ آپؒ امامخ حافظ، فقیہ، علمی فہم اور بصیرت میں اپنی مثال آپ تھے، جنہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں اور بعد والوں کو اپنے غیر معمولی حافظے، فہمِ عمیق اور حدیث میں نقادانہ بصیرت سے حیران کر دیا۔ آپ -رحمہ اللہ- نے سن 256 ہجری میں وفات پائی ۔
امام حافظ ابو عبداللہ حاکم نے آپ کے بارے میں کہا: "وہ اہلِ حدیث کے امام ہیں، اور اس پر اہلِ نقد کے درمیان کوئی اختلاف نہیں"۔ یہ قول امام نووی کی کتاب تهذيب الأسماء واللغات (1/71، إدارة الطباعة المنيرية) میں مذکور ہے۔
جب بھی کسی علمی حلقے میں لفظ "البخاري" بولا جاتا ہے تو ذہن فوراً اسی عظیم امام کی طرف جاتا ہے، اور عام لوگ بھی انہی کی شہرت کی وجہ سے یہی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے اگر لفظ "البخاري" کو کسی تجارتی علامت کے طور پر استعمال کیا جائے اور اس کا مقصد اس مشہور عالم کے نام سے برکت حاصل کرنا، ان کی یاد کو قائم رکھنا، اور ان کی خوبصورت صفات و اعلیٰ اخلاق کی پیروی کرنا ہو، تو یہ کام شرعاً جائز اور صحیح ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل حکم ہر قسم کے نام رکھنے میں جواز کا ہے—چاہے نام اشخاص کے ہوں، جگہوں کے، دکانوں کے، یا تجارتی علامتوں کے—سب کے سب جائز ہیں، سوائے اُن ناموں کے جن کے بارے میں شریعت نے خاص طور پر یا ان کی جنس کے بارے میں ممانعت فرمائی ہو؛ جیسے اللہ تعالیٰ کے وہ نام جو خاص طور پر اسی کے لیے مخصوص ہیں، یا بُرے اور نامناسب نام وغیرہ۔ کیونکہ شرعی اصول یہ ہے کہ: "اصل چیزوں میں اباحت (جواز) ہے، یہاں تک کہ حرمت پر کوئی دلیل قائم ہو جائے"، جیسا کہ امام سیوطی نے الأشباه والنظائر (ص 60، دار الكتب العلمية) میں بیان کیا ہے۔
امام ابو الحسن ماوردي نے اپنی کتاب نصيحة الملوك (ص: 167، مكتبة الفلاح) میں اچھے نام کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اچھا نام وہ ہے جو اہلِ دین کے ناموں سے لیا گیا ہو، جیسے انبیاء، رسول، اور اللہ تعالی کے نیک صالح بندوں کے نام۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہو، اور ان اہلِ دین سے محبت کرنا، ان کے ناموں کو زندہ رکھنا، اور اللہ تعالیٰ کی پیروی کرنا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں کے لیے ناموں کے انتخاب میں ہدایت دی ہے اور دین نے بھی اس کی طرف رہنمائی کی ہے۔
خلاصہ
لہٰذا، سوال کے سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کمپنی کا نام "البخاري" رکھنا اور اسے تجارتی علامت کے طور پر استعمال کرنا شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی گناہ یا ممانعت نہیں۔ البتہ اس سلسلے میں تجارتی ناموں اور ٹریڈ مارکس سے متعلقہ قوانین اور ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
