شیئرز کو قرض کے لیے گروی رکھنے کا ح...

Egypt's Dar Al-Ifta

شیئرز کو قرض کے لیے گروی رکھنے کا حکم

Question

شیئرز کو رہن (گروی) رکھ کر قرض حاصل کرنے کا حکم کیا ہے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ شیئرز کو رہن یعنی گروی رکھ کر قرضِ حسن حاصل کرنا جائز ہے بشرطیکہ قرض کی رقم میں کوئی اضافی سود نہ لیا جائے، اور شیئرز شرعاً جائز ہوں۔ اس میں کوئی غرر (خطرہ یا دھوکے کا پہلو) شامل نہ ہو۔ نیز اس سلسلے میں متعلقہ قانونی، انتظامی یا مجاز ادارے کی مقرر کردہ تمام ہدایات اور ضوابط کی پابندی ضروری ہے۔

تفاصیل:

رهن کا مقصد اور حکم

رهن سے مراد یہ ہے کہ کسی مالی چیز کو مرتهن (جس سے قرض لیا گیا ہو) کے پاس اس لیے رکھا جائے کہ قرض کی ضمانت ہو اور اگر قرض واپس نہ کیا گیا تو اسے وصول کیا جا سکے۔ (دیکھیں: الدر المختار مع حاشيته رد المحتار، امام ابن عابدین الحنفی ج 6، ص 477، دار الفكر)۔

اسلام میں رهن ایک جائز عقد ہے، اور فقہاء نے اس پر اتفاق کیا ہے۔ امام ابن المنذر نے اپنی کتاب الإجماع (ص 101، ط۔ المسلم) میں فرمایا: "فقہاء کا اجماع ہے کہ سفر اور حضر—دونوں حالتوں میں—رہن جائز ہے۔

قرض دینے والے کی جانب سے اپنے حق کی ضمانت کے لیے رہن کی شرط لگانے کا حکم

اگر قرض دینے والا یہ شرط لگائے کہ قرض کی ضمانت کے لیے رهن رکھا جائے گا، تو یہ شرط شرعاً درست ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اور اسے ایسا قرض نہیں کہا جائے گا جو ناجائز نفع کا سبب بنتا ہو، کیونکہ رہن کا فائدہ صرف ضمانت اور وثیقہ ہوتا ہے، اور اس سے قرض دینے والے کو کوئی اضافی نفع حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرض دینے والے کا مال قرض دینے سے پہلے اس کی اپنی ملک میں زیادہ محفوظ تھا، بنسبت اس کے کہ رہن رکھنے کے بعد۔

امام ابو المعالی جوینی نے اپنی کتاب نهاية المطلب میں فرمایا: "اگر پوچھا جائے کہ کیا قرض رهن یا ضامن کی شرط پر جائز ہے؟ تو ہم کہتے ہیں: یہ جائز ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، اور یہ ایسا قرض نہیں جو ناجائز نفع کا سبب بنتا ہو کیونکہ رهن میں کوئی منافع نہیں ہوتا بلکہ صرف ضمانت ہوتی ہے۔"

شیئرز کی حقیقت اور کمپنیوں میں ان کی نمائندگی کا بیان

شیئر وہ دستاویزی اسناد ہیں جو کمپنی اپنے سرمائے کو برابر قیمت کے حصص یعنی شیئرز میں تقسیم کرکے جاری کرتی ہے، اور ہر شریک کے پاس ان حصص کی ایک مخصوص تعداد ہوتی ہے۔ شرکا کے درمیان اِن شیئرز کی تعداد میں بڑا فرق ہوسکتا ہے، اور ہر شریک اپنی ملکیت کے شیئرز کی حد تک ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ (دیکھیں: الوسيط في شرح القانون المدني، علامہ السنہوری 5/ 235، ط. دار إحياء التراث العربي).

شیئرز کسی کمپنی میں شیئر ہولڈر کے حق کی نمائندگی کرتے ہیں، جو اسے کمپنی کے منافع میں حصہ لینے، خسارے میں شریک ہونے، اور کمپنی کے ختم ہونے کی صورت میں اس کے اثاثوں کی تقسیم میں بھی اس کا حق دلاتے ہیں ۔ سرمایے کی کمپنی (یعنی کمپنی آف کیپیٹل) میں حصے دار کا یہ حصہ، شراکتِ اشخاص (پارٹنرشپ) میں شریک کے حصے کے مترادف ہوتا ہے۔ (مأخوذ از: الشركات التجارية في القانون المصري از ڈاکٹر محمود سمیر الشرقاوي، ص 167، طبع: دار النهضة)۔

اس سے مفہوم یہ نکلتا ہے کہ شیئر کمپنی کے سرمایہ میں ایک مساوی حصہ کی نمائندگی کرتا ہے، جس کی قدر کمپنی کی کامیابی یا نقصان کے مطابق بدلتی رہتی ہے، اور یہ اپنے حامل کو کمپنی میں جزوی ملکیت دیتا ہے۔ اس کی ابتدا میں ایک نامیاتی قیمت ہوتی ہے اور مارکیٹ میں اس کی قدر طلب و رسد کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ تجارتی مقاصد اور منافع کے لیے اسٹاک مارکیٹ میں خریدا اور بیچا جا سکتا ہے،  لہٰذا یہ جائز مال شمار ہوتا ہے اور اس کا اجرا، ملکیت اور لین دین شرعاً جائز ہے بشرطیکہ کمپنی کی سرگرمیاں ممنوعہ امور پر مشتمل نہ ہوں۔

شیئرز کو قرض کے لیے گروی رکھنے کا حکم

چونکہ شیئرز کمپنی کے سرمایہ اور اس کے اثاثوں میں مشترکہ حصہ کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے ان کے رہن یعنی گروی رکھنے کا حکم فقہی اختلاف پر منحصر ہے کہ آیا مشرکہ حصہ (الحصة المشاعة) رہن رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔

حنفیہ کے نزدیک مشترکہ (مشاعی)حصہ کو گروی رکھنا بالکل ناجائز ہے، چاہے وہ حصہ شراکت دار کی طرف سے رکھی جائے یا کسی اجنبی شخص کی طرف سے۔، اور یہ حکم ہر حالت پر لاگو ہوتا ہے، چاہے چیز کو تقسیم کیا جا سکے یا نہ کیا جا سکے، اور چاہے شراکت معاہدے سے پہلے موجود ہو یا بعد میں ہوئی ہو۔

علامہ طوری حنفی نے تكملة البحر الرائق میں فرمایا: «ولا يجوز رهن المشاع» یعنی مشترکہ حصہ کو گروی رکھنا جائز نہیں، اور اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ اس میں فرق نہیں کہ چیز تقسیم کے قابل ہو یا تقسیم کے قابل نہ ہو۔

جمہور فقہائے مالکیہ، شافعیہ اور حنبلیہ، کے نزدیک مشترکہ چیز کو گروی رکھنا بالکل جائز ہے، چاہے وہ چیز تقسیم کے قابل ہو یا تقسیم کے قابل نہ ہو، چاہے گروی رکھنے والا شریک ہو یا اجنبی شخص ہو، اور چاہے شراکت معاہدے سے پہلے موجود ہو یا اس کے ساتھ پیدا ہوئی ہو۔

امام دردیر مالکی نے "الشرح الكبير مع حاشية الدسوقي" میں فرمایا: (3/ 235، ط. دار الفكر)«وصح مشاع» یعنی مشترکہ حصہ رهن کرنا جائز ہے، چاہے وہ جائیداد ہو، یا جانور یا چیزیں، جیسا کہ ان کی فروخت، صدقہ یا وقف جائز ہے، اور یہ فرق نہیں پڑتا کہ باقی حصہ رهن کرنے والے کے پاس ہو یا کسی اور کے پاس۔" امام الدسوقی نے اپنی حاشیہ میں وضاحت کی: "قوله: (وصح مشاع) یعنی مشترکہ حصہ کو گروی رکھنا جائز ہے، جیسے نصف، ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ۔

امام الخطيب الشربینی الشافعی نے "مغني المحتاج" (3/ 46، ط. دار الكتب العلمية)میں فرمایا: "مشاعی حصہ رهن کرنا جائز ہے، جیسا کہ پورے حصہ کا رهن کرنا چاہے وہ شریک کی طرف سے رکھی جائے یا کسی اور کی طرف سے۔"

امام البُهوتی حنبلی نے کشاف القناع میں فرمایا: «ويصح رهن المُشاع في الشريك ومن أجنبي» یعنی مشترکہ حصہ کو گروی رکھنا جائز ہے، چاہے وہ شریک کا ہو یا غیر شریک کا، کیونکہ اسے حق کے دائرے میں بیچا جا سکتا ہے۔

فتویٰ کیلئے قولِ مختار یہ ہے کہ مشترکہ ملکیت کو مطلقاً گروی رکھنا مطلقاً جائزہے، اور جمہور فقہاء عظام کا یہی قول ہے۔ دلیل یہ ہے کہ اصل حکم چیز میں صحت اور جواز کا ہوتا ہے جب تک کوئی خاص دلیل اس سے منع نہ کر دے، اور گروی رکھنے کا مقصد قرض کی ضمانت اور توثیق ہے تاکہ اگر مقروض سے قرض ادا نہ ہو تو (گروی رکھی گئی چیز بیچ کر) اسے وصول کیا جا سکے، اور یہ مقصد مشترکہ ملکیت میں بھی حاصل ہوتا ہے۔ ہر چیز جسے بیچا جا سکتا ہے اسے گروی رکھا جا سکتا ہے، اور چونکہ مشترکہ ملکیت فروخت کی جا سکتی ہے اس لیے اسے رهن کرنا بھی جائز ہے ۔ اور اس میں قبضہ حکمی طور پر کافی ہے تاکہ رهن دینے والے کے تصرف کو واپس وصولی تک روکا جا سکے۔

قرض میں اصل یہ ہے کہ وہ اسی مقدار اور اسی وصف کے ساتھ واپس کیا جائے۔

اصل قرض یہ ہے کہ وہ مقدار اور وصف کے اعتبار سے واپس کیا جائے، بغیر کسی زیادتی یا کمی کے۔ کیونکہ قرض کا مقصد پریشانی دور کرنا، مشکلیں آسان کرنا، اور محتاج کی مدد کرنا ہے، نہ کہ قرض دینے والے کے لیے ذاتی فائدہ یا کوئی معاوضہ حاصل کرنا۔ اس نیک نیتی کے لیے اللہ کی رضا اور اجر حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿کون سا وہ شخص ہے جو اللہ کو نیک قرض دے تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا دیتا ہے، اور اللہ قبض و بسط کرنے والا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے﴾ [البقرہ: 245]۔ اور فرماتا ہے: ﴿کون سا وہ شخص ہے جو اللہ کو نیک قرض دے تو اللہ اسے بڑھا دیتا ہے اور اس کے لیے عزت والا اجر ہے﴾ [الحدید: 11]۔

واضح رہے کہ قرض کی اصل یہ ہے کہ اسے اسی مقدار اور اسی وصف کے ساتھ واپس کیا جائے، نہ زیادہ نہ کم؛ کیونکہ قرض کا مقصد ضرورت مندوں کے مصائب کو دور کرنا، مشکلات ختم کرنا، اور ان کی مدد کرنا ہے، بغیر کسی اضافی فائدے کے جو قرض دہندہ حاصل کرے یا کسی معاوضے کے اسے ملے، اس نیت سے کہ اجر و ثواب حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ ترجمہ: " کوئی ہے کہ خدا کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اس کو کئی حصے زیادہ دے گا۔ اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا اور (وہی اسے) کشادہ کرتا ہے۔ اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے" [البقرہ: 245]، اور فرمایا: ﴿مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ﴾ ترجمہ: " کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالیٰ اسے اس کے لیے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے پسندیده اجر ﺛابت ہو جائے"۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس شخص نے کسی مومن کی دنیاوی مشکلات میں سے کوئی مشکل دور کی،اللہ اس کی روز قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل دورفرمائے گا اور جس نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیداکی،اللہ اس کے لیے دنیا اورآخرت میں آسانی پیدا کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی،اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور اللہ اپنے بندے کی مددفرماتا ہے،جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے"۔(مسلم)۔

اسی اصولِ سابق پر فقہاء عظام کا اتفاق ہے۔ امام ابو محمد بن حزم نے "مراتب الاجماع" (ص: 94) اور امام ابو الحسن ابن قطان نے "الاقناع في مسائل الاجماع" (2/196) میں فرمایا: [فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ قرض لی گئی چیز کی مثل واپس کرنا واجب ہے]۔

 

خلاصہ
    اس بنا پر اور سوال کے واقعہ میں: شیئرز کو رہن یعنی گروی رکھ کر قرضِ حسن حاصل کرنا جائز ہے بشرطیکہ قرض کی رقم میں کوئی اضافی سود نہ لیا جائے، اور شیئرز شرعاً جائز ہوں۔ اس میں کوئی غرر (خطرہ یا دھوکے کا پہلو) شامل نہ ہو۔ نیز اس سلسلے میں متعلقہ قانونی، انتظامی یا مجاز ادارے کی مقرر کردہ تمام ہدایات اور ضوابط کی پابندی ضروری ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas