بیٹی، علاتی اور اخیافی بہن بھائی چ...

Egypt's Dar Al-Ifta

بیٹی، علاتی اور اخیافی بہن بھائی چھوڑ کر فوت ہونے والی عورت کی میراث کا اور جنازے کے اخراجات کا حکم

Question

ایک عورت وفات  پا گئی، اور اس نے اپنے پیچھے درج ذیل وارثین چھوڑے ہیں: ایک بیٹی، والد کی طرف سے تین بھائی اور تین بہنیں، اور والدہ کی طرف سے دو بھائی اور چھ بہنیں۔ وفات پانے والی عورت کا ان مذکورہ وارثین کے علاوہ کوئی اور وارث موجود نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی اولاد کی کوئی ایسی اولاد موجود ہے جو وصیتِ واجبہ کی حق دار ہو۔ سوال یہ ہے کہ میت جس ادارے میں کام کرتا تھا اس کی طرف سے ملنے والے مال کا حکم کیا ہے اور ہر وارث کا حصہ کتنا ہوگا؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ اوّل: مرحومہ کے کام کی طرف سے جو رقوم جنازے کے اخراجات وغیرہ کے طور پر دی جاتی ہیں، وہ اسی شخص کا حق ہوتی ہیں جس کے نام پر وہ رقوم نکالی گئی ہوں، اور وہ مرحومہ کی میراث میں شامل نہیں ہوتیں۔ اس طرح کی رقوم کو متوفّیہ کا ترکہ نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی ان کی تقسیم وراثت کے اصولوں کے مطابق ہوتی ہے، بلکہ ان کی تقسیم اسی طریقے سے ہوگی جس کا تعیّن اُس ادارے نے کیا ہو جس نے یہ رقوم دی ہیں، کیونکہ ان رقوم کی حقیقت عطیہ (تبرّع) کی ہوتی ہے، اور دینے والا اپنے عطیے کو جہاں چاہے، خرچ کرنے کا حق رکھتا ہے۔

دوم: مذکورہ عورت کے انہی وارثوں کے ہوتے ہوئے اس کی بیٹی کو نصف ترکہ فرض (حصے) کے طور پر ملے گا، کیونکہ وہ اکیلی ہے اور اسے عصبہ بنانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ اور اس کے علاتی (باپ شریک) بہنوں اور بھائیوں کو عصبہ کے طور پر باقی آدھا حصہ ملے گا، کیونکہ کوئی دوسرا صاحبِ فرض موجود نہیں اور نہ ہی کوئی قریبی عاصب ہے۔ اور ان کے درمیان یہ مال ایسے تقسیم ہو گا کہ مذکر کو دو عورتوں کے برابر ملے۔  اور اس کے اخیافی (ماں شریک) بہنوں اور بھائیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، کیونکہ وہ فرعِ وارث یعنی بیٹی کی وجہ سے محروم ہیں۔

یہ حکم اسی صورت میں ہو گا جب معاملہ بالکل اسی طرح ہو جیسا کہ سوال میں بیان کیا گیا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas