پولٹری فارم پر زکوٰ

Egypt's Dar Al-Ifta

پولٹری فارم پر زکوٰ

Question

سال ٢٠٠٩ ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جس میں حسب ذیل سوال آیا ہے:

مندرجہ ذیل بیان کردہ پولٹری فارم کے کاروبار پر شرعی زکوٰۃ کے بارے میں کیا حکم ہے:

اس پیداوار کی بنیادی دو قسمیں ہیں مرغیوں کی ایک قسم گوشت کے لئے تیار کی جاتی ہے اور دوسری قسم انڈے دینے کےلئے تیار کی جاتی ہے، اور یہ دونوں قسمیں کئی مرحلوں سے گذرتی ہیں:
جہاں تک دادا - یا اصولی- مرغوں اور دادی- یا اصولی - مرغیوں کا تعلق ہے تو ان کی عمر تقریبا پینسنٹھ ہفتے کی ہوتی ہے اور یہ عمر مندرجہ ذیل مرحلوں میں تقسیم ہوتی ہے:
١۔ اس میں تیئس ہفتے صرف پالنے کے ہوتے ہیں اس مدت میں چوزے کو ایک دن سے لیکر پیداواری لحاظ سے پکی عمر یعنی تیئسویں ہفتے تک پالا جاتا ہے.
٢۔ اور بیالیس ہفتے پیداوار کے ہوتے ہیں، اس مدت میں مرغے مرغیوں کے ساتھ ملتے ہیں اور ان ہفتوں میں انڈوں کی پیداوار مختلف شرحوں سے پیدا ہوتی ہے اس شرح کا دارو مدار مجموعے کی عمر پر ہوتا ہے ، مجموعہ کی عمر زیادہ ہو تو پیداوار کم ہو جاتی ہے.
نوٹ: ان قسموں سے پیدا شدہ انڈے آئندہ مرحلے کےلئے چوزے کی پیدائش کےلئے مستعمل ہوتے ہیں ان انڈوں کو چوزے پیدا کرنے کے کارخانے میں بھیجا جاتا ہے تاکہ ان سے وہ چوزے پیدا کیے جائیں جو اگلے مرحلے کےلئے ماوں کی حیثیت رکھتی ہیں.

اور جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے تو انہیں ان دو مرحلوں کے مطابق مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
١۔ پرورش کی مدت یعنی ٢٣ ہفتوں کے اخراجات.
۔ اصل پونجی یعنی خریدے ہوئے چوزے اور دوائیاں.
۔ چارے ۔ بيماريوں سے تحفظ كے اخراجات.
۔ حفاظتی وسائل ۔ صاف صفائی کے سامان.
تیل اور ایندھن یا گرمی پہونچانے کے اخراجات یا گرمی کے آلات چلانے کے اخراجات جیسے بجلی وغیرہ.
۔ مجموعے کی صحت و بیماری کی جانچ کےلئے وقفے وقفے سے طبی معائنے.
۔ لکٹری کا برادہ جس کو فارم میں مرغیاں رکھنے سے پہلے بچھایا جاتا ہے.
۔ آفس کے اخراجات جیسے ٹیلیفون،عملہ کی صفائی کے سامان.
۔ سامان اور عمارت کے استعمال میں صرف ہونے والی فیصد، اس مقدار کو سالانہ حصوں میں پھر ماہانہ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اس فیصد میں ہر سامان یا عمارت کی تخمینی عمر کا اعتبار کیا جاتا ہے.
۔ اجرتیں اور الاونس ۔ مشین چلانے کے اخراجات.

٢۔ دوران پیداوارکے اخراجات:
اس کے وہی اخراجات ہیں جو پالنے کے ہیں لیکن چوزوں کی خریداری کی پونجی ان سے مستثنی ہیں، ہاں اس میں ایک اضافی خرچہ پالنے کا ہے، اس میں پالنے کے اخراجات پیداوار کے ہفتوں پر تقسیم کیے جائیں گے.
۔ یہاں پر اصلی پیداوار وہ انڈے ہیں جو چوزے کی پیدائش کے لائق ہیں، ان کے اخراجات بھی پیداوار کے ہی اخراجات ہیں اس کے علاوہ پالنے کےلئے خاص کردہ اخراجات اس میں شامل ہوں گے.

چوزے نکالنے کی فارم:
۔ انڈے فارم میں چوزے پیدا ہونے کےلئے بھیجے جاتے ہیں، وہاں پر مشینوں میں اکیس دنوں تک ایک متعینہ درجہ حرارت اور نمی میں رکھے جاتے ہیں، پھر یہی چوزوں کی پیداوار فروخت ہوتی ہے.
۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ فارم میں بھیجا گیا ہر انڈا چوزہ پیدا کرے بلکہ مشین میں داخل کیے گئے انڈوں میں سے چالیس فیصد میں سے چوزے نکلتے ہیں جیسے سابقہ اصولی انڈوں میں بھی ہوتا رہتا ہے اور گوشت کی پیداوار کےلئے فربہ مرغیوں میں یہ شرح کبھی کبھی اسی اور پچاسی فیصد تک پہونچ جاتی ہے ، اس فیصد کو چوزے نکلنے کی فیصد کہا جاتا ہے.

اس فارم میں چوزے نکالنے کے اخراجات مندرجہ ذیل صورت کے ہوتے ہیں:
۔ مشین کے اخراجات، بجلی اور صفائی کے سامان.
۔ فارم کے عملہ کی اجرت.
۔ بیچنے کے اخراجات، جیسے گاہکوں تک چوزے پہونچانے کی گاڑیاں، ویٹننری ڈاکٹروں کی فیسیں جو گاہکوں کے پاس مرغیوں کی جانچ کرتے ہیں.

کھانے کےلئے انڈے دینے والی مرغیاں:
اسکے اخراجات بھی سابقہ مرغیوں کے اخراجات کی طرح ہیں لیکن اس میں فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں انڈے چوزے نکالنے کے کارخانے کے بجائے لوگوں کے کھانے کےلئے ارسال کیے جاتے ہیں.

گوشت کی پیداوار کے لئے تیار کردہ مرغیاں:
اس قسم کے مرغ کی عمر تقریبا پینتالیس دن ہوتی ہے، جس میں یہ اتنے بڑے ہو جاتے ہیں کہ ان کا وزن ایک کلو یا آٹھ سو گرام یا دو کلو ہو جاتا ہے، یہ مرغ گوشت کے لئے پالی گئی مرغیوں کے انڈوں سے پیدا ہوتے ہے اس قسم کی مرغیوں کے اخراجات حسب ذیل ہیں:
۔ چوزوں اور چاروں کی قیمت.
۔ مشین چلانے کے اخراجات جیسے بجلی و اصلاحات.
۔ دوائیاں ۔ صاف صفائی کے سامان.
۔ گرم کرنے کےلئے ایندھن اور تیل.
۔ ویٹننری کی سہولتوں کے اخراجات، جیسے طبی معائنے اورمسلسل خصوصی دیکھ بھال کے خرچے.
۔ کرایہ یا استعمال کا معاوضہ، مثال کے طور پر اگر فارم ملکیت کی نہ ہو تو اس کا کرایہ اور اگر ملکیت کی ہو تو اس میں سے استعمال شدہ مقدارکا معاوضہ.

Answer

زکوٰۃ ایک ایسا اسلامی شعار ہے جس میں ایک طرف تو ہمدردی کے معنی پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف یہی زکوٰۃ مال کی پاکی کا ذریعہ بھی ہے، لیکن ان دونوں باتوں سے پہلے یہ ایک اسلامی عبادت ہے جس کی بے چوں و چرا پیروی کرنا لازمی ہے. واضح رہے کہ زکوٰۃ مخصوص اموال میں، مخصوص شرائط کے ساتھ ، ایک مخصوص مقدار میں واجب ہوتی ہے، اور مخصوص مصارف میں خرچ کی جاتی ہے. ان سب امور کو شریعت مطہرہ نے واضح طور پر بیان کیا ہے، انہی اموال میں تجارتی سامان بھی شامل ہے جن پر زکوٰۃ واجب ہے، اگر سامان تجارتی ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اور اگر صنعتی ہو یا پیداواری ہو یا استعمال کی ہو تو اس پر زکوٰ ۃ نہیں ہے.
سامان یا تو تجارتی ہو گا یا استعمال و مدد کےلئے ہو گا، ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ تجارت میں کوئی چیز اس غرض سے خریدی جاتی ہے کہ اس کو نفع حاصل کرنے کےلئے بیچا جائے، بغیر اس کے کہ اس میں صناعت یا پیداوار یا استعمال کا عنصر شامل ہو، جب یہ تین شرطیں پائی جائیں، یعنی فائدہ کمانے کے لئے بیچنے کی غرض سے اگر کوئی چیز خریدی جائے، تو وہ چیز تجارتی سامان کہلاتی ہے، اور جو چیز تجارت کے لئے ہو اس پر سامان تجارت کی زکوٰۃ ہے جس کے حساب لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ قمری سال کے مکمل ہونے پر پونجی اور فوائد کا حساب لگایا جائے اس میں سے برقرار رہنے والی جائداد اور قرضے گھٹائے جائیں اور باقی مال میں سے چالیسواں حصہ نکالا جائے.
''مستغلات'' – یا سامان استعمال و امداد - ایسے اموال کو کہتے ہیں جو بذات خود تجارت کےلئے نہ رکھے گئے ہوں بلکہ منفعت کی غرض سے رکھے گئے ہوں، اور ان سے مالک کو کمائی حاصل ہوتی ہو جیسے فلیٹ، گاڑیاں، یا ان سے حاصل شدہ پیداوار کو بیچنے کےلئے رکھا گيا ہو، جیسے کارخانے، یا تعمیراتی کمپنیاں جو زمینیں خرید کر اس کو آباد کرتی ہیں اور رہنے کے مکانات بنانے والوں کو بیچ دیتی ہیں، یا ایسے چوپائے جن کو اس غرض سے پالا جاتا ہے کہ ان کا دودھ بیچا جائے یا ان کی اون بیچی جائے، یا فربہ کرکے ان کی پیداوار کو بیچنا مقصود ہو، یا وہ مرغیاں جو انڈے دینے کی غرض سے پالی جاتی ہیں یا کھانے کےلئے فربہ کی جاتی ہیں، ان امور میں فتویٰ اسی بات پر ہے کہ ان میں زکوٰۃ نہیں ہے، اگر چہ دور حاضر کے بعض فقہاء ايسے اموال کا دائرہ وسیع کرنے کے حق میں ہیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، ان کی رائے یہ ہے کہ ان اموال میں بھی زکوٰۃ واجب ہے، لیکن ہم اس بارے میں نص کے حدود میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ،کیونکہ زکوٰۃ میں بے چوں وچرا پیروی کا معنی غالب ہے، اس کے علاوہ جن چیزوں میں زکوٰۃ کے وجوب پر نص وارد نہیں ہے ان میں بری الذمہ ہونا ہی اصل ہے، اور کارخانوں یا پیداوار پر زکوٰۃ نہ ہونے میں ایک اہم شرعی حکمت بھی ہے وہ یہ کہ اس سے صنعت کاری کی ترغیب ملتی ہے اور لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے. اور جو مجتہد ان امور میں زکوٰۃ کے وجوب کے قائل نہیں ہیں ان کی نظروں سے فقیروں اور غریبوں کی محتاجی بھی پوشیدہ نہیں ہے، کیونکہ کاروبار کی وسعت سے زیادہ سے زیادہ کام کے مواقع پیدا ہونگے اور مال کی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو گی جس کے نتیجے میں سارا سماج بشمول تمام طبقات خوشحال ہو گا، جن میں فقیر اور غریب وغیرہ بھی شامل ہونگے، اس طرح سے اس میں بلا وسطہ ان کی بھی رعایت پائی جاتی ہے.
اس بنا پر سوال میں جو مرغیوں کو پالنے اور تیار کرنے اور ان کے انڈے اور چوزے بیچنے کی فارم پر زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا گیا ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے، بلکہ اس فارم سے جمع شدہ اور اس کے علاوہ دیگر ذرائع سے جمع شدہ مال جب نصاب کو پہونچے اور اس پر ایک قمری سال گذر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas