گدے پر سجدہ كرنے کا حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

گدے پر سجدہ كرنے کا حکم

Question

سال ٢٠٠٨ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

جس خانقاہ میں ہم نماز پڑھتے ہیں اس کی چوڑائی کے برابر کا ہم نے ایک گدا بنوایا ہے جس کی لمبائی چار میٹر اور چوڑائی سوا میڑ ہے، یہ گدا عمدہ کپڑے کے دو ٹکڑوں اور ان کے درمیان میں ایک پتلے اسپنج کا تیار کردہ ہے، واضح رہے کہ بازار میں اس سے زیادہ پتلا اسپنج ہمیں نہیں ملا، اس کی موٹائی ایک سنٹی میٹر سے زیادہ نہیں ہے بلکہ اس سے بھی کم ہے، فرش ساز نے اسے چوکور یا مربع شکل میں سیا ہے ایک چوکور کی لمبائی بیس سنٹی میٹر ہے اس پر خانقاہ کے آٹھ وابستگان نماز ادا کرتے ہیں اور اگر نمازی زیادہ آجائیں تو وہ خانقاہ کی پرانی معمولی قالین پر نماز ادا کرتے ہیں، اس گدے سے ہمیں نماز میں راحت ملتی ہے خاص کر ہم لوگ بوڑھے ہیں اور گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہیں، بہت سارے لوگوں نے اسے دیکھا اور پسند کیا بلکہ اس پر نماز بھی پڑھی، لیکن اس بات پر بعض حضرات کی نکتہ چینی نے ہمیں واقعتا چونکا دیا، اس لئے ہم نے چاہا کہ آنجناب سے اس بارے میں صحیح رائے معلوم کرلیں.

Answer

اہل سنت کے فقہاء كرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز کی یہ شرط نہیں ہے کہ نماز زمین کی ہى جنس سے کسی چیز پر ادا ہو ، جیسے کہ مٹی یا کنکریاں وغیرہ، شیخ خطیب شربینی شافعی نے''مغنی المحتاج'' میں لکھا ہے: ''اُون پر اور اُون میں نماز کے جواز پر شیعہ کے علاوہ سارے مسلمانوں کا اجماع ہے، اور امام مالک کے سوا کسی کے نزدیک ان میں سے کسی چیز پر نماز ادا کرنے میں کراہت نہیں ہے، امام مالک کے نزدیک ان چیزوں پر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، اور شیعہ کا کہنا ہے کہ جائز نہیں ہے کیونکہ وہ زمین سے اگنے والی اشیاء میں شامل نہیں ہے''. - مغنی المحتاج - ١/٤٢٦.
اسی طرح اگر وہ چیز جس پر انسان نماز پڑھے ملائم ہو یا تھوڑی سی موٹی ہو اور سجدے میں اس کا ماتھا اس پر ٹک پاتا ہو تو نماز کی درستگی میں کوئی اثر نہیں پڑتا ہے.
امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث روایت کی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے تھے اور وہ آپ کے اور قبلے کے درمیان ان کے ازدواجی بستر پر جنازے کی طرح حائل ہوتیں. امام بخاری نے اس کا عنوان ''باب الصلاۃ علی الفراش'' - یعنی بستر پر نماز کے باب میں - رکھا ہے. حافظ ابن حجر نے '' فتح الباری'' میں اس سلسلے ميں لکھا ہے: ''اور امام بخاری نے اس عنوان سے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جسے ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ ابراہیم نخعی، انہوں نے اسود اور انکے اصحاب سے روايت كى ہے کہ وہ لوگ مخملی عرقگیروں، کھالوں اور بالوں کے کمبلوں پر نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے، اور انہوں نے صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت سے اس کا جواز روایت کیا ہے".
امام احمد نے اپنی مسند میں اور طبرانی نے ''المعجم الکبیر'' میں اور ابو داود نے روایت کی ہے، اور ابن خزیمہ اور حاکم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی سند سے اس كو صحیح کہا ہے، روایتِ مسند کے الفاظ یہ ہیں کہ انہوں نے فرمایا: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دباغت کی گئی کھال پر نماز پڑھتے تھے ۔ یا نماز پڑھنا پسند فرماتے تھے''. حاکم نے کہا یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اسے کھال کے ذکر کے ساتھ روایت نہیں کیا ہے، بلکہ امام مسلم نے حضرت ابو سعید سے مروی چٹائی پر نماز والی حدیث میں اسے شامل کیا ہے، اور ذھبی نے کہا: یہ روایت مسلم کی شرط پر ہے اگر چہ اس کی اسناد میں کچھ ایسے بھی ہیں جو روایت میں ضعیف قرار دئے گئے ہیں پھر بھی یہ حدیث اس معنی کی دیگر روایات کے وارد ہونے کی وجہ سے حسن ہے.
امام احمد نے محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: ''یا رسول اللہ ! کیا میں کھال میں نماز پڑھ سکتا ہوں؟ آپ ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے جواب دیا: ''ورنہ دباغت کرنے کا کیا فائدہ!''. شیخ سندی نے''المسند'' -٣١/٤٠٧- پر اپنے حاشیے میں اس بارے میں لکھا ہے: یعنی اگر تم نہیں پڑھو گے تو دباغت کا مقصد ضائع ہو گیا کیونکہ دباغت اس کو پاک کرنے کےلئے اور اس میں نماز جائز ہونے کے لئے ہوتى ہے، اگر اس کے بعد بھی جائز نہ ہو تو پھر اس سے کیا فائدہ''.ا.ھ.
حافظ طُیوری حنبلی نے ''الطُیوریات'' -٧٤٠- میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کے کمبل پر نماز ادا فرمائی.
نیز صحابہ اور سلف کی ایک جماعت سے اس کا جائز ہونا ثابت ہے کہ وہ حضرات کبھی کبھار موٹی اور آرامدہ چیزوں پر نماز ادا کرتے تھے جیسے کہ بستروں، مسندوں، تکیوں، زین کے نیچے ڈالنے کے گدیلوں، بالوں کے کمبلوں، بھرائی کیے گئے گدیلوں جو سوار کے نیچے ڈالے جاتے ہیں، نمدوں، کھالوں، بالوں کے کمبلوں، پالان کے نیچے والے کپڑوں، زین کے نیچے ڈالنے کے عرقگیروں، نمدوں وغیرہ وغیرہ پر.
امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے ''المصنف'' -١/٣٠٤۔٣٠٥- میں اس مریض کے بارے میں جو تکیے یا مسند پر سجدہ کرتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ''بیمار مسند اور پاک کپڑے پر سجدہ کر سکتا ہے۔ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ انہیں آشوب چشم ہوا تو وہ چمڑے کے تکیے پر سجدہ فرمایا کرتی تھیں. نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے تکیے پر سجدہ کیا. مزید حضرت ابو عالیہ سے مروی ہے کہ وہ بیمار تھے اور ان كےلئے ایک مسند دوہرا کیا جاتا تھا تاکہ وہ اس پر سجدہ کریں. اور حسن بصری اس بات میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ اگر آدمی کشتی میں مسند اور تکیے پر سجدہ کیا کرے.
بستر پر نماز پڑھنے کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ اپنے بستر پر نماز ادا کرتے تھے. اور حضرت طاووس سے مروی ہے کہ وہ اسی بستر پر نماز پڑھتے تھے جس پر وہ بیمارى كى حالت ميں ليٹتے تھے.
اسی طرح بالوں کے کمبلوں پر نماز پڑھنے کے بارے میں ''المصنف' -١/٤٣٦۔٤٣٧- میں حضرت علی، حضرت جابر، حضرت ابو درداء ، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھم سے روایت کی گئی ہے۔ اور تابعین میں سے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالی سے روایت کی گئی ہے کہ وہ حضرات بالوں کے کمبلوں پر نماز پڑھتے تھے، جبکہ حضرت ابراهیم نے اسود اور ان کے ساتھیوں سے روایت کی ہے کہ وہ حضرات بالوں کے کمبلوں، چمڑوں اور عرقگیروں پر نماز پڑھنا مکروہ سمجھتے تھے.
بالوں کے کمبلوں اور بچھونوں پر نماز سے متعلق حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میں تہہ بتہہ رکھی ہوئی چھ بال کے کمبلوں پر نماز پڑھوں، اور حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ہمیں مغرب کی نماز اس بال کی کمبل پر پڑھائی جو گھر میں بچھائی گئی تھی، اور عبد اللہ بن عمار سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر کو بالوں کے موٹے کمبل پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اور حسن بصری سے منقول ہے، انہوں نے کہا: بالوں کے کمبل پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور انہی سے مروی ہے کہ وہ بالوں کی کمبل پر اس طرح نماز پڑھتے تھے کہ ان کے دونوں پیر اور دونوں گھٹنے اس پر ہوتے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ اور چہرہ زمین پر ہوتے تھے یا ٹاٹ پر ہوتے تھے. اور قیس بن عباد قیسی سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنی سواری کے نمدہ پر نماز پڑھی. اور مرہ ھمدانی کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے بھی نمدہ پر نماز پڑھی.
اسی طرح کھال پر نماز پڑھنے کے بارے میں-١/٤٤١۔٤٤٢- مسروق سے مروی ہے کہ وہ قربانی کے جانور کی کھال کی دباغت کرتے اور اس کو جائے نماز بناتے تھے اور اس پر نماز ادا کرتے تھے. علقمہ سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے، اور عبد الرحمن بن اسود سے مروی ہے کہ وہ اپنے گھر میں بھیڑ کی کھال پر نماز پڑھتے تھے، اُون ان کے پیروں کی طرف ہوتی تھی، جبکہ اسود اور ان کے ساتھیوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ کھالوں پر نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے.ا.ھ.

کچھ ایسے الفاظ کی تشریح جو فقہی متون میں وارد ہیں:
الفُرُش جمع ہے فِراش کی، اور'' فِراش'' اس بستر کو کہتے ہیں جس پر سویا جاتا ہے.
المَرافِق، المِرفَقۃ کی جمع ہے، اور'' المرفقۃ'' مسند اور تکیے کو کہا جاتا ہے.
الوَسائد، الوِسادۃ کی جمع ہے، اور''الوِسادۃ'' تکیہ کو کہتے ہیں.
النَمارق، النُمرُقۃ کی جمع ہے،اور'' النُمرُقۃ''اس تکیہ کو کہا جاتا ہے جس پر سوار بیٹھتا ہے.
الطنافس،الطنفسۃ- طا اور فا میں تینوں حرکات زبر زیر پیش میں سے کسی کے بھی ساتھ- کی جمع ہے، اور'' الطنفسۃ''چٹائی یا اس پردے کو کہتے ہیں جو سواری کے زین کے نیچے ڈالتے ہیں.
المَیاثر، المِیثَرۃ کی جمع ہے، اور ''المِیثرۃ'' اس بھرے ہوئے بچھونے کو کہتے ہیں جو سواری پر سوار کے نیچے رکھا جاتا ہے.
العَبقری، العَبقریۃ کی جمع ہے، اور فراء کے قول کے مطابق ''العبقریۃ'' بالوں کے موٹے کمبل کو کہتے ہیں.
الفِراء، الفَروۃ کی جمع ہے، اور ''الفَروۃ'' ایسی چادر کو کہتے ہیں جو جانوروں کی کھال سے بنائی گئی ہو.
المُسوح، مِسح کی جمع ہے، اور ''مِسح'' بالوں کے موٹے کپڑے کو کہتے ہیں.
الاَحلاس، الحِلس کی جمع ہے، اور ''الحِلس'' ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اونٹ یا دیگر سواریوں کی پیٹھ پر زین یا کجاوہ یا سواری کے پشت پر کی لکڑی کے نیچے ڈالی جاتی ہے وہ نمدہ کے نیچے عرقگیر کا کام کرتی ہے.
المَراشح، المِرشح اور المِرشحۃ کی جمع ہے، اور یہ اس کملی کو کہتے ہیں جو زین کے نمدے کے نیچے ہوتی ہے اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ وہ پسینہ کو جذب کر لیتی ہے.
اور اللُبود جمع ہے لِبد يا لِبدۃ يا لُبدۃ کی، اور اللبدۃ ہر اس اُون کو کہتے ہیں جو تہہ بتہہ لپیٹى گئی ہو.
ابن حزم نے ''المحلی'' -١/٤٠٢۔٤٠٣- میں لکھا ہے: مسئلہ: اور چمڑوں پر نماز جائز ہے اور اُون پر اور ہر اس چیز پر جس پر بیٹھنا جائز ہے اگر وہ پاک ہو تو، اور عورت کےلئے ریشم پر نماز پڑھنا جائز ہے، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، ابو سلیمان وغیرہ کا یہی قول ہے، جبكہ عطاء نے کہا: مٹی اور سنگریزوں کو چھوڑ کر کسی اور چیز پر نماز جائز نہیں ہے. اور امام مالک نے کہا: زمین یا زمین سے اگنے والی چیز کے سوا پر نماز پڑھنا مکروہ ہے. علی نے کہا: اس قول کی درستگی پر کوئی دلیل نہیں ہے، چنانچہ سات عضووں پر سجدہ کرنا واجب ہے، دونوں پاؤں، دونوں گھٹنوں، دونوں ہاتھوں، پیشانی اور ناکـ پر. اور پیشانی کے سوا ان سب اعضاء کو ہر اس چیز پر رکھنا وہ جائز قرار دیتے ہیں جس کو ہم نے بیان کیا ہے، سجدہ کرنے والے اعضاء کے درمیان کیا فرق ہے ان کے درمیان فرق پر کوئی حجت نہیں ہے: نہ ہی قرآن وسنت سے، نہ ہی صحیح و ضعیف حديث سے، نہ اجماع و قیاس سے، اور نہ کسی صاحب علم کے قول اور باوزن شخصيت کي رائے سے، باقى توفیق صرف اللہ تعالی سے ہی وابستہ ہے. چنانچہ ہم نے ابن مسعود کی روایت ذکر کی ہے کہ انہوں نے بالوں کے نمدے پر نماز پڑھی ہے، اور حضرت عمر بن خطاب کے بارے میں روایت منقول ہے کہ وہ نماز میں بالوں کے موٹے کمبل پر سجدہ کرتے تھے، اور حضرت ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے نماز میں بالوں کے موٹے کمبل پر سجدہ کیا، اسی طرح کی روایت حضرت ابو درداء سے بھی منقول ہے، نیز حضرت شریح، حضرت زهری اور حضرت حسن سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے، اور جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہم نے تذکرہ کیا ہے اس فعل میں ان کی کسی نے مخالفت نہیں کی ہے. باقى توفیق صرف اللہ تعالی سے ہی وابستہ ہے''.
پیروی کیے جانے والے مذاہب کے ارباب فقہ نے جائے سجود میں یہ شرط رکھی ہے کہ نماز پڑھنے والا زمین کا حجم محسوس کرے اور جس چیز پر سجدہ کرے اس پر اس کا ماتھا ٹک جائے.
اس بارے میں احناف کے مذہب کی ترجمانی کرتے ہوئے امام سرخسی ''المبسوط''-١/٢٠٥۔٢٠٦- میں لکھتے ہیں: ''اگر نمازی برف پر نماز پڑھے تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اس پر سجدہ کر سکے''، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سجدے کی جگہ ٹھوس جمي ہوئي چیز ہو، تب ہی تو اس کے ماتھے كو زمین کا حجم مل سکے گا، لیکن اگر وہ ٹھوس نہ ہو اور ماتھا زمین کو نہ پاسکے تو جائز نہیں ہے کیونکہ یہ تو ہوا میں سجد ہ کرنے کے مترادف ہے، اس بنا پر گھاس یا روئی پر سجدہ کرنا جائز ہے اگر اس پر ماتھا رکھنے سے زمین کا حجم مل جائے ورنہ نہیں، اور اسی طرح اگر بھرائی کی گئی بالوں کے کمبل پر پڑھے اور وہ تہہ بتہہ ہو تو اس کی نماز جائز ہے مگر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی رائے میں جائز نہیں ہے، کسی صحابی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا: مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اگر میں دس یا دس سے زیادہ چٹائیوں پر نماز پڑھوں!''.
امام کاسانی نے ''بدائع الصنائع''-١/٢١٠- میں لکھا ہے: اگر گھاس یا روئی پر سجدہ کیا اور اس پر اس کا ماتھا دھنس گیا یہاں تک کہ زمین کا حجم مل گیا تو جائز ہے،اور اگر نہیں ملا تو جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر بھرائی کی گئی بالوں کے کمبل پر پڑھ لیا تو بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ تہہ بتہہ جمی ہوئی ہو، اور اسی طرح اگر برف پر پڑھ لے تو بھی جائز ہے بشرطیکہ اس کے سجدے کی جگہ ٹھوس ہو ورنہ جائز نہیں ہے''.
امام کمال بن ھمام نے ''فتح القدیر''-١/٣٠٤- میں لکھا ہے: [فروع] گھاس، بھوسہ، روئی، عرقگیر پر سجدہ کرنا جائز ہے بشرطیکہ زمین کی سطح مل جائے، اسی طرح جمے برف پر جائز ہے لیکن اگر برف ایسی ہو کہ اس کے اندر اس کا چہرہ غائب ہو جائے اور زمین کی سطح نہیں پاسکے تو جائز نہیں ہے، اور زمین پر پڑى پالکی پر سجدہ کرنا جائز ہے جس طرح چارپائی پر جائز ہے لیکن اگر گائے پر رکھی ہوئی ہو تو نہيں كيونكہ اسكا حكم درختوں کے درمیان باندھی ہوئی چادر كا ہے، اس کے بر عکس مچان، گندم اورجَو پر جائز ہے جبکہ عدم ثبات كى وجہ سے باجرے اور چاول پر جائز نہیں ہے.
نيز ''الفتاوی الھندیہ''-١/٧٠- میں آیا ہے: ''اور اگر گھاس یا بھوسہ یا روئی یا بالوں کی چادر یا برف پر سجدہ کرے تو اس کا ماتھا اور اس کی ناک ٹک جائے اور اس کی سطح مل جائے تو جائز ہے اور اگر نہ ٹکے تو نہیں۔۔۔ الخلاصہ میں يہی آیا ہے.
شیخ ابن عابدین نے الحاشیۃ-١/٤٧٢- میں شرنبلالی کے اس قول"و شرطُ سجودٍ فالقرارُ لجبھةٍ" کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: ''و شرطُ سجودٍ" مبتدا اور مضاف الیہ ہے "فالقرارُ" فاء زائدہ کے ساتھ خبر ہے " لجبھةٍ" یعنی ضروری ہے کہ اس چیز پر سجدہ کرے جس کی سطح مل جائے، کہ اگر سجدہ کرنے والا مبالغہ سے کام لے تو اس کا سر اس سے زیادہ اندر نہ جائے جتنا رکھنے کے وقت گیا تھا، اس لیے چاول اور مکئی جیسی چیزوں پر صحیح نہیں ہے، ہاں اگر تھیلوں میں ہو تو درست ہے، اور نہ ہی روئی ، برف اور بستر پر جائز ہے اِلا یہ کہ اس کے دبانے سے زمین کی سطح مل جائے''.
نیز انہوں نے لکھا ہے -١/٥٢٣-: ''قولہ و أن یجدَ حجمَ الارضِ"- زمین کا حجم اسے مل جائے- اس کی شرح یہ ہے کہ اگر سجدہ کرنے والا اس پر سر دبانے میں مبالغہ کرے تو اس کا سر اس سے زیادہ اندر نہ جائے، اس بنیاد پر بالوں کی کمبل، چٹائی، گندم، جَو اور چار پائی پر درست ہے، اگر پالکی زمین پر رکھی ہوئی ہو اور درختوں کے درمیان باندھے گئے پردے کی طرح جانور کی پیٹھ پر نہ ہو تو اس پر بهى درست ہے، اور چاول یا مکئی پر درست نہيں اِلا یہ کہ بوریوں میں ہو، یا اس برف پر درست نہيں جس کو نہ لپیٹا ہو اور اس میں اس کا چہرہ اس طرح دھنس جاتا ہو کہ سطح نہ مل پاتی ہو، یا گھاس پر مگر یہ کہ اس کی سطح مل جاتی ہو، اسی سے یہ حکم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ روئی کی پٹی پر اگر اس کی سطح مل جائے تو جائز ہے ورنہ نہیں. بحر'' ا ھ.
علامہ طحطاوی نے صاحب مراقی کے اس قول پر"و من شروط صحة السجود کونہ" کے بارے میں ''مراقی الفلاح'' پر اپنے حاشیے - ص ١٢٦- میں لکھا ہے کہ "علی ما"(جس پر)- کسی بهى چیز پر، "يجد"(پائے) - سجدہ کرنے والا، "حجمه"(اس کا حجم) کہ اگر دبانے میں مبالغہ کرے تو اس کا سر اس سے زیادہ اندر نہ جائے جتنا رکھتے ہوئے گیا ہو، اس لئے روئی ، برف، بھوسہ، چاول ، مکئی اور روئی کے بیج پر سجدہ کرنا درست نہیں ہے، "و"(اور) گندم اور جَو، "تستقر عليه جبهته"(جس پر اس کا ماتھا ٹکتا ہو)، تو اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے کیونکہ اس کے دانے کھردرے پن اور نرم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر برقرار رہتے ہیں''.
"قوله على ما يجد حجمه''(انکا يہ کہنا كہ اس پر جس کی سطح پالے) یعنی اس کی سختي كو پالے جیسا کہ ''الفتح'' میں آیا ہے، اگر چہ زمین کے معنی میں ہي كيوں نہ ہو جیسے کہ چارپائی اور زمين پر ركهى پالکی،"قوله فلا يصح السجود على القطن إلخ"- (ان کا کہنا کہ روئی پر سجدہ صحیح نہیں ہے الخ) یعنی اگر اس كي سختي كو نہ پا سكے اور اگر پالے تو جائز ہے، اور اسی طرح ہر بھرائی کی ہوئی چیز پر جیسے کہ بستر اور تکیہ، " قوله والأرز والذرة"( ان کا چاول اور مکئی کہنا) کیونکہ یہ چیزیں ،ظاہری چکناہٹ اور جسم کی سختی کی وجہ سے ایک دوسرے پر ثابت نہیں رہتیں ہیں اس لئے ان میں سطح تک پہونچنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی ماتھا ٹکنے کا امکان باقی رہتا ہے، مگر یہ کہ کسی تھیلے میں ہوں، "قوله لخشونةٍ"( ان کا کہنا كہ کھردرے پن کی وجہ سے) یعنی اس کے دانوں میں "و رخاوة"(اور نرمی کی وجہ سے) یعنی ان کے اجسام میں'' ا.ھ.
مگر مالکیوں نے سوائے مسجد اور ضرورت کے اسے مکروہ جانا ہے، اور اگر مسجد میں ہو یا مجبوری کی وجہ سے ہو تو کراہت نہیں ہے:
شیخ دسوقی امام دردیر کے اس قول پر"وَكُرِهَ سُجُودٌ عَلَى ثَوْبٍ"(اور کپڑے پر سجدہ کرنا مکروہ جانا گیا ہے)، ''الشرح الکبیر'' پر اپنے حاشیے-١/٢٥٢- میں لکھتے ہیں: یا اس بچھونے پر جو مسجد میں بچھانے کے لیے نہ ہو، "لا"(نہ) اس پر"حَصِيرٍ"(چٹائی) جس میں آرام طلبی نہ ہو جیسے"حلفَاءَ" پر جو ایک قسم کی بوٹی کی بنی ہوئی ہوتي هے، تو اس پر مکروہ نہیں ہے، "وَتَرْكُهُ"(اور اس کاچھوڑنا ) یعنی اس چٹائی پر سجدہ کرنے كو ترك كرنا "أَحْسَنُ"( بہتر ہے ) لیکن نرم نرم چٹائیوں پر مکروہ ہے].
"قوله لم يعدّ لفرش مسجد"( ان کا کہنا جو مسجد میں بچھانے کے لئے نہ ہو) یعنی اور اس پر سجدہ کرنے کی ضرورت نہ ہو جیسے گرمی یا سردی یا زمین کی سختی وغیرہ جیسی مجبوریاں نہ ہوں ، ورنہ کراہت نہیں ہے، اسی طرح اگر چٹائی مسجد میں بچھانے کےلئے ہو تو اس پر سجدہ کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے، چاہے یہ بچھونا وقف کرنے والے کی طرف سے ہو یا وقف کے مال سے ہو یا کسی دوسرے شخص کا بچھایا ہوا ہو کیونکہ وہ فرش کے لئے ہی تو وقف ہوا ہے'' ا.ھ.
شافعی مذہب: امام شافعی رضی اللہ عنہ کتاب ''الام'' میں -١/١١١- "في باب ما يصلى عليه مما يلبس و يبسط " - بچھائی جانے والی اور پہنی جانی والی چیزوں میں سے جن پر نماز پڑھنا جائز ہے کے باب میں لکھتے ہیں: ''حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے''نمرۃ'' میں نماز پڑھی ، اور''النمرۃ ''اُون کو کہتے ہیں، اس لئے اُون، بال اور اونٹ اور خرگوش کے بالوں میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اسي طرح ان چیزوں پر نماز پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں، اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس چمڑے کی دباغت کی جائے وہ پاک ہو جاتا ہے'' ، اس لئے کتے اور خنزیر کے سوا مردار اور درندوں کے چمڑوں پر اور ہر روح والے کے چمڑوں پر دباغت کے بعد نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسی طرح ہر ذبح کئے گئے اس جانور جس کا گوشت حلال ہے کی کھال پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر چہ اس کی دباغت بھی نہ کی گئی ہو''.
امام نووی نے ''المجموع''- ٣/٣٩٨- میں لکھا ہے: ''اگر روئی پر یا گھاس پر یا ان دونوں سے بھری ہوئی چیز پر سجدہ کرے تو اس کو دبانا واجب ہے یہاں تک کہ خوب بیٹھ جائے اور اگر اس بھرائی کی ہوئی چیز کے نیچے ہاتھ رکھا جائےتو اس کا اثر ہاتھ پر ظاہر ہو جائے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو جائز نہیں ہے، اور امام الحرمین نے کہا: میري رائے میں اگر وہ سر کو ڈھیلا رکھ دے تو کافی ہے، اور سجدے کی جگہ کیسی بھی رہے دبانے کی ضرورت نہیں ہے، اور پہلا مذہب ہی معتبر ہے ، ابو محمد جوینی نے اسی کو اختیار کیا ہے، اور صاحب التتمۃ و التھذیب نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے''.
خطیب شربینی نے ''مغنی المحتاج'' (١/٣٧٣) میں لکھا ہے: ''وينال مسجدَه"- اور اس كي سجدہ گاہ كو پہونچے- يعنى سجده كى جگہ كو، واضح رہے کہ لفظ "مسجد" کو یہاں دونوں طرح سے پڑھ سکتے ہیں مسجَد اور مسجِد جیم کے فتحے اور اس کے کسرے کے ساتھ، "ثِقَلُ رأسه" - اس كے سر کا وزن - یہ شرط اس بارے میں وارد حدیث ''اور جب تم سجدہ کرو تو ماتھا مکمل طور پر ٹھراؤ'' کی وجہ سے لگائی گئی ہے، اور وزن کے معنی یہ ہیں کہ اتنا دبائے کہ اگر اس کے نیچے روئی یا گھاس تصور کیا جائے تو وہ دب جائے اور ہاتھ پر اس کا اثر ظاہر ہو جائے اگر وہ اس کے نیچے تصور کیا جائے، اور امام نے سر ڈھیلا کرنے کو کافی جانا ہے . وہ فرماتے ہیں: دباؤ ڈالنے كا تکلف اٹهانے سے يہي صورت انکساری کے زیادہ قریب تر ہے، "ينال" کا معنی پانے اور حاصل ہونے كے ہے ، يہاں پر "مسجدَہ" منصوب ہے ، اور "ثقلُ" فاعل ہے'' ا.ھ .
حنبلیوں کا مذہب: ابن تیمیہ '' الفتاوی الکبری'' (٢/٦٨) میں لکھتے ہیں: ''اگر بچھونا زمین کے جنس سے ہو تو اہل علم کے مابین اس پر نماز پڑھنے میں اور سجدہ کرنے میں اختلاف نہیں ہے، جیسے کہ چھوٹی چٹائی اور بوریا وغیرہ وغیرہ، ليكن جو زمین کی جنس سے نہ ہو اس کے بارے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے جیسے كہ چوپایوں کے چمڑے سے بنے ہوئے فرش پر، اور رنگے گئے اُون کے مسند اور فرش، اکثر اہل علم اس میں بھی رخصت دیتے ہیں، امام شافعی اور احمد جیسے اہل حدیث کا ، اور امام ابو حنیفہ اور ديگر اہل کوفہ کا یہی مذہب ہے، اور انہوں نے اس کے جائز ہونے پر حدیث عائشہ سے بھی استدال کیا ہے، کیونکہ بستر زمین کی جنس سے نہیں ہوا كرتا تھا، بلکہ چمڑے یا اُون کا ہوتا تھا''.
مرداوی نے ''الاِنصاف'' (٢/٧٠) میں لکھا ہے: اصحاب نے کہا: "اگر گھاس پر سجدہ کرے یا روئی پر یا برف پر، یا اولوں وغیرہ پر، اور اس کی سطح نہ پاسكے ، تو ٹھوس جگہ نہ ہونے كى وجہ سے صحیح نہیں ہے".
امام بهوتی نے ''کشف القناع''(١/٢٩٨) میں لکھا ہے : (و) تصح الصلاة (على الثلج بحائل أو لا, إذا وجد حجمه) (اور) نماز صحیح ہے ( برف پر کسی حائل چيز کے ساتھ یا بغیر حائل کے، جب سجدہ کرنے والا اس کی سطح پالے) کیونکہ سجدے کے اعضاء اس بر قرار رہتے ہیں(وكذا حشيش وقطن منتفش)(اور اسی طرح گھاس اور دھنی ہوئی روئی پر) اس پر بھی نماز جائز ہے اگر اسے اسکی سطح مل جائےتو( اور اگر اس کی سطح نہ مل پائے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے) ، کیونکہ اس پر اس کا ماتھا نہیں ٹک سکتا''.
اس بنا پر اور سوال کے پیش نظر یہ گدا جو آپ لوگوں نے نماز پڑھنے کےلئے بنوایا ہے اس پر شرعی طور پر نماز جائز ہے، اور اہل سنت کے فقہاء اور چاروں مذاہب کےائمہ كرام کے اتفاق کے مطابق اس پر نماز پڑھنا حرام نہیں ہے ،کیونکہ اس کی بیان شدہ موٹائی بالكل معمولي ہے جو ماتھا ٹکنے ميں مانع نہیں ہو گی، اور اس پر نماز پڑھنے والا سجدہ کرتے وقت زمین کی سطح پالے گا ، اسی طرح مالکی حضرات کے نزدیک بھی اس میں کراہت نہیں ہے، کیونكہ ان کے نزدیک اگر وہ مسجد میں ہو یا ضرورت کے پيش نظر ہو تو کراہت دور ہو جاتی ہے اور وه دونوں چیزیں یہاں پر پائی جاتی ہیں.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas