حاملہ عورت رمضان کے روزے کس طرح قضا...

Egypt's Dar Al-Ifta

حاملہ عورت رمضان کے روزے کس طرح قضا كرے؟

Question

ت سال ٢٠٠٣ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

میں ایک حاملہ عورت ہوں اور میرا یہ دوسرا مہینہ چل رہا ہے، مجھے نگران خاتون ڈاکٹر نے رمضان میں روزہ نہ رکھنے كا مشورہ دیا ہے، اور میری معلومات کے مطابق مجھے اس کی اجازت ہے، مجھے اللہ سبحانہ و تعالی نے تیس دنوں کا کفارہ نکالنے کی طاقت دی ہے، تو میں نے تیس مسکینوں کو کھانا کھلا دیا ہے.

میرا سوال اب یہ ہے کہ کیا مجھے وضع حمل کے بعد تیس دنوں کی قضا بھی کرنی ہے؟ واضح رہے کہ اگر اللہ تعالی نے مجھے فطرتی دودھ پلانے کی توفیق دے دی تو اس مدت میں بھی روزہ پسندیدہ نہیں ہے،امید ہے کہ اللہ کی مرضی سے مجھے آئندہ مئی میں بچہ ہو جائے، اس لئے آئندہ رمضان دودھ چھڑانے کی مدت میں آئیگا.

براہ کرم مجھے حتمی حکم سے روشناس کرائیں، کہ کیا تیس مسکینوں کو کھانا کھلانا کافی ہے یا مجھ پر قضا بھی واجب ہے؟ اور وہ کس طرح اور کب؟

Answer

جب متعلقہ ڈاکٹر نے آپ کو حمل کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کا مشوره دیا تو آپ کےلئے روزہ نہ رکھنا جائز ہے اور رمضان کے بعد اس كي قضا لازم ہے اور اگر آپ وضع حمل کے بعد روزوں کی طاقت رکھتی ہوں تو فدیہ قضا کے عوض نہیں ہے، اور رمضان کی قضا فورا واجب نہیں، بلکہ وسعت پر مبنی ہے اور جس وقت بھی ممکن ہو سکے رکھ لے، چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے ثابت ہے کہ وہ رمضان کے باقیماندہ روزوں کو شعبان میں رکھا کرتیں تھیں. اگر قضا میں تاخیر ہو جائے یہاں تک کہ دوسرا رمضان آجائے تو موجودہ رمضان کے روزے رکھ لے، اس کے بعد پھر قضا روزے رکھے، اور اگر تاخیر کسی عذر کی وجہ سے ہے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے، لیکن اگر تاخیر بے عذر ہو تو قضا اور فدیہ دونوں لازم ہیں، اس بنا پر اس خاتون پر جس کو ڈاکٹر نے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا روزہ نہیں ہے لیکن اس پر روزہ کی قضا ہے جس وقت چاہے رکھ سکتی ہے، چاہے پے در پے رکھے یا الگ الگ اوقات میں رکھے، اور اس نے جو فدیہ دیا ہے وہ قضا کی عوض نہیں بن سکتا، کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:( فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ) - تو اتنے روزے اور دنوں میں-[ البقرۃ: ١٨٤]. کیونکہ وہ دوسرے دنوں میں روزہ رکھ سکتی ہے، درحقيقت وہ اس کے سر اللہ کا قرضہ ہے اور اللہ کا قرضہ تو ادائیگی کا زیادہ حقدار ہے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas