لگنے سے پہلے ہی پھل کی خریدوفروخت
Question
سائل کے والد کے پاس کچھ کھجور کے درخت ہیں اور ان کی یہ عادت ہے کہ پھل لگنے سے پہلے ہی وہ انہیں فروخت کر دیتے ہیں اور کئی مہینوں تک ان کی قیمت وصول کرتے رہتے ہیں، تو شریعت میں اس معاملے کا کیا حکم ہے؟.
Answer
یہ معاملہ اس صورت میں درست ہے کہ اس عقد کو خرید و فروخت کی بجائے درخت کو کرایہ پر لینے والی حالت میں تبدیل کیا جائے جیسا کہ حنابلہ میں سے حضرت حرب کرمانی اور حضرت ابو الوفاء بن عقیل کا مذہب ہے اور امام ابن تیمیہ نے اسی کو ترجیح دی ہے اور ذکر کیا ہے کہ یہ رائے سلف صالحین کے اجماع کی طرح ہے اگر چہ مشہور یہی ہے کہ پیروی کیے جانے والے ائمہ کرام اس کے حق میں نہیں ہیں، چنانچہ حضرت سعید بن منصور سے روایت ہے- جس كو حضرت حرب کرمانی نے اپنے ''مسائل'' میں ان سے نقل کيا ہے- کہتے ہیں: ہم سے عباد بن عباد نے ان سے ہشام بن عروہ نے ان سے ان كے والد نے بيان کیا ہے: ''اسید بن حضیر فوت ہوئے اور ان پر چھ ہزار درہم کا قرضہ تھا، تو حضرت عمر نے ان کے قرضداروں کو بلایا، اور ان کی زمین کئی سالوں تک كےلئے ان سے قبول کروائى حالانكہ اس زمین میں کھجور کے درخت اور دیگر قسم كے درخت موجود تھے''، اور یہ زمین کو کاشتکاری کےلئے کرایہ پر دینے اور دودھ والی کو اجرت پر دودھ پلانے جیسے مسائل کے زمرے میں آتا ہے.
یہاں پر کرایہ پر دینا اس لئے جائز ہوا۔ حالانکہ کرائے کا معاملہ تو منفعت سے متعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ فائدہ جو اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے حاصل ہو اگر چہ عین ہو( جیسے درخت یا دودھ پلانے والی کا دودھ یا چوپایوں کی اون) لیکن یہ عین بھی منفعت کے حکم میں ہے اس لحاظ سے کہ یہ استعمال کرنے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالی کی تخلیق سے پیدا ہوتی رہتی ہیں.
اس بنا پر اور سوال کو مد نظر رکھتے ہوئے: کھجور کے درختوں کے مالک اور دیگر دوسرے درختوں کے مالکان کےلئے یہ جائز ہے کہ درخت تاجر کو کرایہ پر دے تاکہ وہ اس کی آبپاشی کرے اور اس کی پیوندکاری کرے اوراس کو نقصان سے بچائے اور اپنے عمل اور آبپاشی سے پھل نکالے، لیکن مدت متعین ہو اور کرایہ بھی متعین ہو اس صورت میں یہ عمل اس حکم میں شامل نہیں ہوگا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پختگى كے ظہور سے پہلے پھل كو بیچنے سے منع فرمایا ہے.
باقى اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.