عید کی تکبیروں کے الفاظ

Egypt's Dar Al-Ifta

عید کی تکبیروں کے الفاظ

Question

ت سال ٢٠٠٥ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو مندرجہ ذیل سوال پر مشتمل ہے:

عالیجناب سے گذارش ہے کہ عیدوں کے سلسلے میں وارد مندرجہ ذیل کلمات کی شرعی حیثیت کے بارے میں ہمیں روشناس فرمائیں:ـــ''اللہ اکبراللہ اکبر اللہ اکبر ، لا اِلہ اِلا اللہ ، اللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد، اللہ اکبر کبیرا، و الحمد للہ کثیرا، و سبحان اللہ بکرۃ و اَصیلا، لا اِلہ اِلا اللہ وحدہ، صدق وعدہ، ونصر عبدہ ، و اَعز جندہ، و ھزم الاَحزاب وحدہ، لا اِلہ اِلا اللہ، و لا نعبد اِلا اِیاہ مخلصین له الدین ولو کرہ الکافرون، اللھم صل علی سیدنا محمد ، و علی آل سیدنا محمد، و علی اَصحاب سیدنا محمد، و علی اَنصار سیدنا محمد، و علی اَزواج سیدنا محمد، و علی ذریة سیدنا محمد و سلم تسلیما کثیرا'' ۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے، اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے اللہ ہی کےلئے سب خوبیاں ہیں، اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے اس کی خوب بڑائی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کےلئے سب خوبیاں ہیں اس کی خوبیاں بہت بیان ہوتی ہيں ، اور اللہ تعالیٰ کی پاکی ہے صبح وشام، اللہ یکتا کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے لشکر کو غلبہ دیا اور لشکروں کو اکیلے شکست دی، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ہم صرف اور صرف اسی کی پرستش کرتے ہیں خالص اس کی بندگی کے جذبے کے ساتھ اگرچہ کافروں کو اس سے نفرت ہو، اے اللہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما، اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آل پر، اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہء کرام پر، اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والے لوگوں پر، اورہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کى ازواج مطہرات پر، اورہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کي نسل پاک پر، اور خوب سلام بھیج ''. یاد رہے کہ بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ یہ بدعت اور حرام ہے.

Answer

عید میں تکبیريں کہنا مستحب ہے، اور حدیث پاک میں مخصوص تکبیر کے متعلق کوئی نص نہیں ہے، لیکن بعض صحابہء کرام جن میں حضرت سلمان فارسی بھی شامل ہیں مندرجہ ذیل تکبیر پڑھا کرتے تھے:'' اللہ اَکبر اللہ اَکبر اللہ اکبر لا اِلہ اِلا اللہ اللہ اَکبر اللہ اَکبر و للہ الحمد ـ'' [ اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے، اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے اللہ ہی کےلئے سب خوبیاں ہیں] - لیکن یہ امر گنجائش پر مبنی ہے، کیونکہ اس بارے میں وارد نص مطلق ہے، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ] - اوراس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت دی ہے اس پرا للہ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر کرو- [سورة البقرة: ١٨٥]. اور مطلق حکم اپنے اطلاق پر ہی رہے گا الا یہ کہ شریعت میں اسے مقید کرنے والی کوئی دلیل موجود ہو، چونکہ مصری عوام پرانے زمانے سے اسی مشہور اور زبان زد خاص وعام صیغے سے تکبیريں کہتے آئے ہیں، اس تکبیر کے الفاظ یہ ہيں:''اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر لا اِلہ اِلا اللہ ، اللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد، اللہ اکبر کبیرا ، و الحمد للہ کثیرا، و سبحان اللہ بکرۃ و اَصیلا، لا اِلہ اِلا اللہ وحدہ صدق وعدہ و نصر عبدہ و اَعز جندہ و ھزم الاَحزاب وحدہ، لا اِلہ اِلا اللہ و لا نعبد اِلا اِیاہ مخلصین له الدین ولو کرہ الکافرون، اللھم صل علی سیدنا محمد و علی آل سیدنا محمد و علی اَصحاب سیدنا محمد و علی اَنصار سیدنا محمد و علی اَزواج سیدنا محمد و علی ذریة سیدنا محمد و سلم تسلیما کثیرا''. اور یہ صیغہ صحیح اورشریعت کے مطابق ہے، امام شافعی نے اس کے بارے میں فرمایاہے: ''اگرکوئی اس طرح تکبیر کہتا ہے جس طرح آج کل عوام تکبیریں کہا کرتے ہیں تووہ بھی اچھا ہے،اور اگر کسی تکبیر کا اضافہ کیا تو بھی اچھا ہے، اور اگر اس کے ساتھ مزید اللہ تعالیٰ کى ذکر کا اضافہ کیا تو میں اسے پسند کرتا ہوں'' ختم شد.
اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور انکى آل اور انکے اصحاب اور ان کے انصار اور ان کی ازواج مطہرات اور ان کی نسل پاک پر درود و سلام کا تکبیر کے آخر میں بڑھانا ایک جائز امر ہے، کیونکہ بہترین ذکر وہ ہے جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر دونوں ایک ساتھ جمع ہوں، اس كے علاوه حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے سے عمل کی قبولیت کا دروازہ کھلتا ہے، بلکہ درود و سلام کا عمل ہمیشہ مقبول ہوتا ہے حتی کہ منافق سے ہی کیوں نہ صادر ہو جیسا کہ اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے، اور یہ اس وجہ سے کہ اس عمل کا تعلق جناب اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.
اس بنا پر جو شخص یہ دعوی کرے کہ اس مشہور صیغے کا کہنے والا بدعتی ہے تو وہ خود بدعت سے زیادہ قریب تر ہے، کیونکہ اس نے وسعت پر مبنی مسئلے کو تنگ کر دیا اور جس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کشادگی رکھی ہے اس میں تنگی پیدا کر دی، اور بغیر دلیل کے ایک مطلق امر کو مقید کر دیا، اور اس مسئلے میں ہمارے لئے بھی اس کشادگی کی گنجائش ہے جس کی گنجائش ہمارے نیک اسلاف کو تھی چنانچہ انہوں نے ایسے صیغوں کو مستحسن قرار دیا اور جائز رکھا اور عوام الناس کے عرف و تقلید کو برقرار رکھا بشرطيكہ شریعت کے موافق ہو مخالف نہ ہو ، لہذا اس کام سے منع کرنا بیجا اور نا قابل التفات ہے اس رائے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas