غیر مسلم ممالک کے خلاف وسیع تر تباہ...

Egypt's Dar Al-Ifta

غیر مسلم ممالک کے خلاف وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کا استعمال

Question

و پیش کی گئی درخواست پر ہم مطلع ہوئے جو زیر نمبر٩٨٠بابت سال٢٠٠٩ مندرج ہے اس میں حسب ذیل سوال آیا ہے:

ان دنوں کچھ فرقوں، جماعتوں اور گروہوں کی ایسی تحریریں اور مقالات منظر عام پر آئے ہیں جن میں ان حضرات نے یہ دعوی کیا ہے کہ ان كےلئے غیر مسلم ممالک کے خلاف وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کا استعمال كرنا جائز ہے، ان کا خیال ہے کہ ان کا یہ دعوی شریعت کے عین مطابق ہے، اس سلسلے میں انہوں نے کچھ فقہی نصوص سے بھی استدلال کیا ہے، اسی طرح اس مسئلے کو انہوں نے ( تَتَرُّس) یعنی انسانی ڈھال بنانے اور (تَبییت) یعنی شبخون مارنے اور آگ لگانے کے مسائل پر قیاس کیا ہے جن کا تذکرہ چند فقہی کتابوں میں ملتا ہے، تو کیا یہ بات درست اور شریعت کے مطابق ہے؟

Answer

وسیع تر تباہی پھیلانے والا ہتھیار: فوجی اصطلاح میں سخت ترین تباہی مچانے والے غیر روایتی ہتھیاروں کی ایک قسم کو کہتے ہیں، جس کے استعمال سے اس خطہ زمین پر زبردست تباہی و بربادی پھیل جاتی ہے جس كو ہدف بنايا جاتا ہے، اس عام تباہی میں انسان اور جانوروں کے علاوہ وہاں کی آب وہوا بھی شدید متاثر ہو جاتی ہے۔
یہ ہتھیار تین قسم کے ہوتے ہیں:ایٹمی ہتھیار: جیسے كہ ایٹم بم ،ہیڈروجین بم اورنیٹروجین بم، اس طرح کے بم ایسی طرز پر بنائے جاتے ہیں جس میں جلانے کے عناصر پھیلانے کی صلاحیت ہوتی ہے جس کے نتيحے ميں انسان اور عمارتوں کا وجود تہس نہس ہو جاتا ہے، اور ایک عرصہ دراز کےلئے شہروں کے شہروں كو فضائی آلودگی کا شکار بناتے ہیں، ان ہتھیاروں میں كچه ایسے بھی ہيں جو صرف انسانی جانوں كو ختم كرتے ہيں عمارتوں کو نہيں.
کیمیائی ہتھیار: ان سے مراد وہ مختلف اثرات والے جنگی گیسیں یا جلانے کی صلاحیت رکھنے والے عناصر ہیں،جن کی تاثیریں نہایت ہی خطرناک ہوتی ہیں بلکہ ان کی زد میں آنے والے ہر ذی روح موت کى گھاٹ بهى اتر سكتا ہے، اسی طرح ان سے پیڑ بودے اور فصلیں بھی متاثر ہوتی ہیں، عموما یہ زہریلے مواد گیس کی شکل میں ہوا كرتے ہیں يا تیزی سے بھانپ کی صورت اختيار كرنے والے سیال مادے کی شکل میں ہوتے ہیں لیکن ٹھوس مادے کی صورت میں شاذ و نادر ہی پائے جاتے ہیں.
جراثیمی ہتھیار: اس مفہوم میں ہر وہ وائرس اور جراثیم شامل ہیں جنہیں دشمنوں کی صفوں میں خطرناک قسم کی وبائی بیماریوں کے پھیلاؤ کےلئے استعمال کیا جاتا ہے، اور دشمن كے زراعتی اور حیوانی وسائل کو نقصان پہونچانے کےلئے اس ہتھیار کا سہارا لیا جاتا ہے.
واضح رہنا چاہئے کہ ظالموں کی حوصلہ شکنی کی نیت سے اسلامی ممالک کےلئے ایسے ہتھیار کا حصول شرعی لحاظ سے امر مطلوب ہے، چنانچہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ) - اور ان کےلیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے، اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو الله کے دشمن ہیں اور جو تمہارے دشمن ہيں- (الانفال:٦٠). علامہ آلوسی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ''یعنی ہر وہ طاقت جس سے جنگ میں مدد اور تقویت ملتی ہے چاہے وہ کسی بھی قسم كى ہو''(١٠/٢٤/ط. دار احیاء التراث العربی) . اللہ تبارک وتعالی نے مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں دشمنوں کی ہمت شکنی کا حکم فرمایا تاکہ وه مسلمانوں پر حملے یا ظلم و زیادتی کى جسارت نہ كر سكيں، معلوم رہے کہ"ردع"یعنی لگام دینا يا سد باب كرنا ایک شرعی اصول ہے جیسا کہ اسلام کی شرعی اور تادیبی سزاؤوں میں يہ پہلو نمایاں ہے، اسی طرح "ردع" یا سد باب كرنا ایک مستحکم اور قابل اعتماد سیاسی اصول بھی ہے، دنیا کے سارے ممالک اپنی اپنی دفاعی حکمت عملی میں اسی اصول پر کار بند ہیں جیسا کہ ''علوم فوجی حکمت عملی'' میں يہ طے شده ہے، لہذا ان ہتھیاروں کا حصول اور ان کا رکھنا مقصد اصلی''ردع'' یعنی لگام دینے کےلئے تکملہ کی حیثیت رکھتا ہے اور مطلوب کا تکملہ بھی مطلوب ہى ہوتا ہے، اور کسی امر کی اجازت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لوازمات بھی جائز ہوں پھر اس میں جو فائدہ ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے وه يہ کہ اس سے ممالک کے درمیان باہمی فوجی اور اسٹراٹیجی توازن پیدا ہوتا ہے، اور اس سے ہوتا یہ ہے کہ اگر کوئی ملک کسی مسلمان ملک پر حملہ کرنے کا ارادہ دل میں لاتا ہے تو فورا اس سے باز آجاتا ہے اور انجام کار یہ ہوتا ہے کہ جنگ سےبچا جاتا ہے جو جنگ درحقيقت مقصود اصلى نہيں ہوتى۔
یہ موقف تو ظالموں کو روکنے اور ان کے دلوں میں رعب ودبدبہ جمائے رکھنے کی خاطر ان ہتھیاروں كو حاصل كرنے اور رکھنے کا ہے، ليكن ''ردع'' یعنی لگام دینے کےلئے ہتھیار رکھنے اورعملی طور پر اس کے شروع استعمال کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے، اور سوال میں شروع استعمال كى صورت کے ہى بارے ميں پوچها گيا ہے اور اس قسم كے استعمال كے جواز كى بنياد درحقیقت انفرادی اجتہادوں اور بعض مخصوص جماعتوں یا گروہوں یا فرقوں کے خیالات پر رکھی گئی ہے، لیکن یہ عمل شرعا ممنوع ہے، اور اس کے جواز کا قول کرنا اور اس كو شریعت اور علمائے شريعت كى طرف منسوب كرنا سراسر جھوٹ ہے ، بہتان ہے، اور دین و شریعت کے حق میں افترا اندازی ہے، اس دعوى کی دلیل حسب ذیل امور ہیں:
پہلا: بنیادی طور پر جنگ صرف اور صرف مسلمان حاکم کے زیر سایہ ہوتى ہے، اور جنگ کا معاملہ اس کى صواب دید پر منحصر ہے اور رعایا پر اس بارے میں ان کی اطاعت واجب ہے، کيونكہ یہ امر ان کے حوالے اس لئے كيا گيا ہے کہ وہ اس کے بارے میں اچھی معلومات رکھتے ہیں اور معاملات کی نزاکتوں اور مسائل کے ظاہر وباطن کی خوب درک رکھتے ہیں اور وہ اپنے رعایا کے مفادات اور کاروائیوں کے آغاز وانجام سے بخوبی واقف ہیں، چنانچہ ان کی تقرری کے ساتھ ہی عمومی اور بین الاقوامی معاہدات کی ذمہ داری اور اعلان جنگ کا اختیار ان کو مل جاتا ہے، پھر وہ من مانی اور صرف اپنی مرضی سے احکامات صادر نہیں کرتے بلکہ وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں یا احکامات جاری کرتے ہیں وہ متعلقہ شعبہ جات کے ماہرین کے ساتھ مشورہ كرنے کے بعد ہی کرتے ہیں، چنانچہ ان احکامات میں تجربہ کار اور فن آزمودہ حضرات اور سیاسی اور فوجی امور کے ماہرین لوگوں کی بھر پور شرکت ہوتی ہے، اور یہ لوگ ان ہدایات کی تشکیل میں پورا پورا حصہ لیتے ہیں، انکے مشورے کے بغیر تنے تنہا صرف حاکم وقت کا یہ سب کچھ انجام دینا ممکن نہیں ہوتا.
لہذا تمام مسلمانوں میں سے کسی ایک فرد یا چند افراد کی جانب سے ایسے ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کیا جانا صرف حاکم وقت پر ہی جرأت مندی نہیں ہے بلکہ پوری امت پر جرأت مندی کے مترادف ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو ایسے فیصلے کرنے کا مجاز قرار دیا ہے جن كے ساته پوری کی پوری امت کا انجام وابستہ ہے پھر نہ اس میں امت کا مشورہ حاصل کیا گیا اور نہ اہل حل و عقد کی طرف رجوع کیا گیا، اور یہ فیصلے بھی ایسے امور ميں جو پورے کے پورے ملک اور باشندوں کے وجود کو بڑے خطروں ميں جهونک سكتے ہیں.
علامہ بہوتی ''منتہی الإرادات'' کی شرح میں فرماتے ہیں: ''ویحرم غزو بلا إذن الأمیر، لرجوع أمر الحرب إلیه ، لعلمه بکثرۃ العدو وقلته ومکامنه وکیدہ (إلا أن یفاجئھم عدو) کفار(یخافون کلبه) ۔ یعنی کسی بھی قسم کی جنگ بغیر حاکم وقت کی اجازت کے حرام ہے، کیونکہ جنگ کا معاملہ اسی کے سپرد ہے، اور یہ اس لئے کہ اسی کو دشمن کی قلت و کثرت اور اس کے مکر و فریب کا علم ہوتا ہے( الا یہ کہ کسی دشمن کی طرف سے اچانک حملہ ہو جائے)یعنی کافروں کی جانب سے(اور انہیں انکے شر اور اذيت کا اندیشہ ہو) اس صورت میں مصلحت اسی میں منحصر ہو جانے کی وجہ سے حاكم کی اجازت کے بغیر ہی ان کے ساتھ جنگ جائز ہے، الخ۔(١۔٦٣٦ مطبوعہ عالم الکتب) .(سابقہ عبارت میں (کلَبه) لام کے فتحہ کے ساتھ ہے اور اس کا معنی فتنہ اور فساد ہے.
دوسرا: اس سے بین الاقوامی ان تمام معاہدوں، قراردادوں اور وعدوں کی مخالفت ہوتی ہے جن سے اسلامی ممالک نے محض اپنے ارادہ واختیار سے اتفاق کیا ہے یا ان میں شامل ہوئے ہیں اور بین الاقوامی امن وسلامتی کےلئے امم متحدہ کے ساتھ اتفاق کیا ہے جن معاہدوں كا مقصد ہے کہ دستخط کنندہ ممالک ان کی پابندی کركے امن وامان بحال كريں۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ) - اے ایمان والو! اپنے قول پورے کرو ۔[المائدہ:١]. واضح رہے کہ لفظ''العقود'' ''عقد'' کی جمع ہے اور'' عقد'' کسی بھی امر میں فریقین کے درمیان واقع شدہ باہمی اتفاق کو کہتے ہیں۔ شیخ الاسلام علامہ ابن عاشور تونسی اپنی تفسیر میں اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں: ''العقود''پر الف لام جنسی استغراقی ہے لہذا اس میں وہ معاہدات بھی شامل ہیں جو بندے اپنے پروردگار کے ساتھ کرتے ہیں، جیسے کہ اس کی شریعت کی پابندی ، اور اسی قبیل سے سرکار دوعالم ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کی وہ بیعت تھی جو مسلمانوں کے ساتھ کيا كرتے تھے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور چوری نہ کریں اور زنا نہ کریں۔۔۔۔، اور اس میں وہ معاہدات بھی شامل ہیں جو مسلمان لوگ مشرکوں کے ساتھ کرتے ہیں اسی طرح وہ معاہدات بھی اس ضمن میں آتے ہیں جو مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ كيا کرتے ہیں۔(التحریر والتنویر۔٦/٧٤، ط۔ الدار التونیسیة للنشر).
ترمذی نے عمرو بن عوف مزنی ۔ رضی اللہ عنہ ۔ سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہوتے ہیں سوائے ایسی شرط کے جو حلال کو حرام کردے یا حرام کو حلال کردے"۔ امام جصاص فرماتے ہیں: ''اس میں ان تمام شرطوں کی ادائیگی کے وجوب کی دلیل پائی جاتی ہے جنہیں کوئی بھی انسان اپنے آپ پر لازم کرلیتا ہے الا يہ کہ خصوصیت کی کوئى دلیل پائی جائے۔(الخ احکام القرآن٢/٤١٨، ط۔ دار الفکر).
اور امام بخاری نے حضرت علی ۔ رضی اللہ عنہ ۔ سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی کریم ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے ارشاد فرمایا:''ذمة المسلمین واحدۃ یسعی بھا أدناھم فمن أخفر مسلما فعلیه لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین لایقبل منہ صرف ولا عدل''. - تمام مسلمانوں کا وعدہ ومعاہدہ ایک ہے،ان میں سے کمترین درجه رکهنے والا بھی اس کی (تکمیل) کےلئے کوشاں رہتا ہے، اور جس کسی نے بھی کسی مسلمان کے کیے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ دیا تو اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے اورتمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، نہ اس کى کوئی نفل مقبول ہے اور نہ کوئی فرض-. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ''ذمة المسلمین'' یعنی مسلمانوں کا عہد وپیمان، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ''یسعی بھا أدناھم'' یعنی ان میں کم سے کم تعداد والا فرد بھی ان کے عہدوپیمان کی پاسداری کرتا ہے، لہذا اگر کوئی مسلمان کوئی عہدوپیمان کرلیتا ہے تو پھر کسی کو عہد شکنی کا حق نہیں رہتا، یہ تو ایک فرد کی بات ہے تو حاکم وقت كے عہدوپیمان کا کیا عالم ہوگا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد'' فمن أخفر'' یعنی جس نے عہد وپیمان کو توڑ دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد'' صَرْفٌ ولا عَدْلٌ''یعنی فرض و نفل، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے.
امام بخاری نے اپنی ''صحیح'' میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''چارخصلتیں جس میں بھی ہوں وہ پورا پورا منافق ہو گیا،اور جس میں ان میں سے ایک پائی جائے تو اس میں منافقت کی ایک خصلت پائی گئی، الا یہ کہ اس سے باز آجائے:جب امانت سونپی جائے تو خیانت کرجائے،اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے،اور جب عہدوپیمان کرے تو دھوکہ کرجائے،اور جب جھگڑا کرے تو گالی بكے'' ، اور بیہقی نے عمرو بن حمق خزاعی سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جب کوئی شخص کسی شخص کو جان کا امان دے دے اس کے بعد پھر اسے مار ڈالے تو میرا اس قاتل سے کوئی تعلق نہیں ہے اگرچہ قتل کیا گیا شخص کافر ہی کیوں نہ ہو''.
اس لئے ان بین الاقوامی معاہدات میں شریک تمام فریق وگروہ ان طے شدہ معاہدوں کے مطابق امن وسلامتی كى حالت میں ہیں. اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيم) - اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھکو، اور الله پر بھروسہ رکھو، بیشک وہی ہے سنتا جانتا- (الانفال:٦١).
تیسرا: اس عمل میں دھوکہ دے کر قتل کرنا اور غفلت كى حالت ميں لوگوں کى جان لینا پايا جاتا ہے، چونكہ ابو داوود نے اور حاکم نے ''مستدرک'' میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ،انہوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''لا یَفْتِكُ المُؤْمِنُ ، الإیمانُ قَیْدُ الفتك''- یعنی مومن دھوکے سے نہیں مارتا، ایمان دھوکہ دے کر مارنے كى بیڑی ہے''. ابن اثیر فرماتے ہیں: ''فتك کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ساتھی کے پاس ایسی حالت میں آئے کہ وہ بے شعور ہو اور بالکل لاعلم ہو پھر اس پر حملہ کر دے اور مار ڈالے'' الخ، [النھایۃ فی غریب الحدیث والأثر ج ٣/٧٧٥،ط المکتبة العلمیة ، بیروت]. اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ایمان دھوکہ دے کر قتل کرنے ميں ایسے ہی مانع ہوتا ہے جیسے بیڑی چلنے پھرنے ميں، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ''لا یَفْتِكُ المؤمِنُ'' – اگر چہ جملہ خبریہ ہے لیکن معنی میں جملہ انشائیہ یعنی فعل نہی کے ہے، کیونکہ اس فعل میں مکر وفریب اور دھوکہ شامل ہے، اور یہاں یہ احتمال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ''لا یفتك'' براہ راست فعل نہی ہى ہو.
جب حضرت خبیب انصاری رضی اللہ عنہ مشرکوں کے پاس قیدی بن گئے اور پھر مکہ شریف میں بیچے گئے تو حضرت خبیب کو خریدنے والے حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے بیٹے تھے، چنانچہ خبیب نے ہی بدر کے موقعے پر حارث بن عامر کو قتل كر ديا تھا، بہرحال حضرت خبیب بنو حارث کے یہاں قیدی بنے رہے۔ ایک روز حضرت خبیب نے اپنے بال اتارنے کےلئے حارث کی بیٹی سے استرا مانگا، تو اس نے لا کر دے دیا، اسی اثنا میں انہوں نے اس كى بے خبرى ميں اس کے ایک بیٹے کو لیا جب وہ آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ وہ ان کی ران پر بیٹھا ہے اور استرا ان کے ہاتھ میں ہے اس منظر سے وہ بہت زیادہ گھبرا گئى، تو حضرت خبیب نے پوچها: '' کیا تم ڈر رہی ہو کہ كہیں ميں اسے مار نہ ڈالوں؟ّ! میں تو ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا!، حارث کی بیٹی کہتی ہے: ''بخدا میں نے خبیب سے بہتر کبھی کوئی قیدی نہیں دیکھا''، ملاحظہ فرمائے یہ ایک مسلمان شخص ہیں جو اپنے ایسے دشمنوں کے نرغے میں ہیں جو ان کے قتل کی تیاری کر رہے ہیں اور وہ لقمہء اجل بننے جا رہے ہیں ،اس کے باوجود جبكہ اتنا اچھا موقع ہاتھ آگیا کہ ان کے بچے کی جان لیکر وہ ان کے دلوں کو پاش پاش کرسکتے ہیں لیکن وه اس سے پرہیز کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، کیونکہ ایک مسلمان کا کردار اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دھوکہ دھڑی سے کام لئے یا انجان و بے شعور لوگوں کو اچانک قتل کردے.
چوتھا: اس حرکت ميں عورتوں اور بچوں کا قتل اور انہیں ٹھیس پہنچنا پايا جاتا ہے، چنانچہ امام بخاری اور مسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غزوے میں ایک خاتون مقتول پائی گئی، تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل کی مذمت فرمائی. امام بخاری اور مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے: ''تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا". امام نووی فرماتے ہیں: "علمائے کرام نے اس حدیث پر عمل پيرا ہونے اور بچوں اور خواتین کے قتل کی حرمت پر اجماع کیا ہے،بشرطیکہ وہ جنگجو نہ ہوں، اور اگر وہ لڑیں تو جمہور علمائے کرام کے قول کے مطابق وہ مارے جائیں گے''الخ[شرح مسلم۔١٢/٤٨،ط - دار احیاء التراث العربی].
پانچواں: لازمى ہے کہ ایسی حرکت کی وجہ سے ان ممالک كے اصلى باشندے مسلمان یا دوسرى جگہوں سے آنے والے مسلمان بهى قتل ہونگے اور اذیت سے دوچار ہونگے، جبکہ شریعت مطہرہ نے ایک مسلمان کے خون کی عظمت و حرمت کو اچھی طرح نمایاں کر دیا ہے اور ناحق اس كا خون بہانے یا اس کی پامالی کی سخت ترین مذمت فرمائی ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا) - اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے، اور الله نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کےلئے بڑا عذاب تیار رکھا-[النساء:٩٣]. اور اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا)- اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کسی جان كو قتل کیا بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا ، اور جس نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلا لیا(سورة المائدة: 32).
اس كے علاوه امام نسائی نے اپنی ''سنن'' میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "یقینا اللہ تعالی کے نزدیک دنیا کا زوال کسی مسلمان کے مارے جانے سے زیادہ آسان ہے". اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے، انہوں نے بیان کیا : "میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کا طواف کرتے کرتے یہ پڑھتے دیکھا: ''ما أطیبك وأطیب ریحك، ما أعظمك وأعظم حرمتك، والذي نفسُ محمد بیدہ لحرمة المؤمن أعظم عند اللہ حرمة منك: ماله ودمه وأن نظن بہ خیرا''- تو کیا ہی پاکیزہ ہے! تیری ہوا کتنی ہی خوشبودار ہے! تو کیا ہی عظمت والا ہے، تیرا تقدس کتنا ہی عظیم تر ہے! اس کی قسم جس کے ہاته میں محمد كى جان ہے، یقینا مؤمن کی عظمت اللہ تعالی کی بارگاہ میں تجھ سے بھی زیادہ ہے: اس کا مال اور اس کی جان، اور یہ کہ اس کے بارے ميں ہم صرف اچھا گمان رکھیں''.
الغرض کسی مسلمان کو جان بوجھ کر اور از راہ زیادتی قتل کرنا ايسا گناہ کبیرہ ہے جس كا درجہ کفر کے بعد آتا ہے، یہی نہیں بلکہ قاتل کے توبہ کی قبولیت کے بارے میں صحابہ کرام اور ان کے بعد کے آنے والے حضرات كے درميان اختلاف رہا ہے.
چھٹا:اس نادانی اور بے وقوفانہ حرکت سے تمام مسلمانوں پر بلکہ پوری دنیا پر بے پناہ مصائب وآلام مسلط ہونگے، کیونکہ جس ملک پر استعمال ہوگا وہ بھی اسی قسم کے تصرف پر اتر آئے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ خطرناک تصرف سے كام لے، مزید برآں ان ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے تباہ کن نتائج صرف اسی خطے کی حد تک محدود نہیں رہتے بلکہ ہواؤوں کا بہاؤ قرب و جوار کے دوسرے ملکوں کی طرف بھی انہیں منتقل کر دیتا ہے جن کا سرے سے اس معاملےسے کوئی تعلق ہى نہیں ہوتا ہے، بہرحال ایسی حرکت سے حاضر ومستقبل میں رونما ہونے والی خرابیاں اس سے امید کردہ مفادات سے بے انتہا بڑھکر ہيں۔ وه بهى اس صورت ميں اگر اس میں واقعی کوئی مفاد فرض کیا جائے تو۔ اور شریعت کے اہم ترین اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ ''خرابی کا دور کرنا واجب ہے بلکہ حصول منفعت پر فوقیت رکھتا ہے''.
ساتواں:ان ہتھیاروں کے استعمال سے عوامی اور شخصی مال، کار خانے اور جائیداد تباہ وبرباد ہوتے ہیں، اور مال و دولت کو رائیگاں اور برباد کرنے کی حرمت شریعت میں وارد ہے، اور یہ حرمت دوگنی مزید اورشدید ہوجاتی ہے اگر برباد کردہ مال برباد کرنے والے کا نہ ہو بلکہ کسی غیر کا ہو، اور یہی صورت زیر نظر مسئلے میں ہے، لہذا یہاں دوہری حرمت ثابت ہوتی ہے ایک طرف تو شریعت کی ممانعت كى مخالفت كى اور دوسرى طرف لوگوں کے حقوق پامال كرنے كى.
آٹھواں: ان ہتھیاروں کے استعمال کی کچھ صورتیں ایسی بھی ہیں جن کےلئے ہتھیار استعمال کرنے والے کو مطلوبہ ملک میں داخلے کی ضرورت پڑتی ہے، اور داخلہ کےلئے مطلوبہ تمام سرکاری کاروائیاں کرنی پڑتی ہيں، اور ان ملکوں میں کسی شخص کے داخلے کی منظوری کے ضمن میں یہ شرط بھی پائی جاتی ہے کہ ان کا داخلہ اس شرط کے ساتھ منظور ہے کہ وہاں جاکر فتنہ و فساد نہیں کرے گا، یہ بات اگر لفظ میں صراحتا مذکور نہ بھی ہو ليكن یہ مفہوم میں ضرور شامل ہے، اور فقہائے کرام نے ایسے مسئلے کی وضاحت فرمادی ہے، چنانچہ امام خرقی اپنی ''مختصر'' میں فرماتے ہیں: ''من دخل إلی ارض العدو بأمان، لم یخنھم فی مالھم'' - جو شخص دشمن کی سر زمین پر جائے وہ ان کے مال میں خیانت نہ کرے''، ابن قدامہ اس عبارت کی تشریح میں فرماتے ہیں: ''جہاں تک ان کے ساتھ خیانت کی بات ہے تو وہ حرام ہے، کیونکہ ان کی طرف سے دی گئی داخلہ کی اجازت خیانت نہ کرنے اور ان کی جان کو خطرہ نہ پہونچانے کی شرط کے ساتھ مشروط ہے، اور یہ بات اگر چہ لفظوں میں صراحتا مذکور نہیں ہے لیکن معنوی طور پر مفہوم ہے، اسی بنیاد پر اگر ان میں سے کوئی ہمارے یہاں داخلہ کی اجازت لے کر آئے اور خیانت کر دے تو وہ عہد وپیمان کی خلاف ورزی کرنے والا شمار کیا جائے گا. لہذا جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ان کے ساتھ خیانت کرنا ناجائز ہوا، کیونکہ یہ دھوکہ بازی ہے ، اور دھوکہ بازی کی ہمارے دین میں کوئی گنجائش نہیں ہے" انتهى،[المغنی٩/٢٣٧،ط ۔ دار إحیاء التراث العربی].
واضح رہے کہ اس مجرمانہ سوچ کی ترویج واشاعت کے لئے جن شرعی اور فقہی عبارتوں کا سہارا لیا گیا ہے ان عبارتوں کو ان کے سياق وسباق ، موقع ومحل سے الگ رکھ کر استعمال كيا گیا ہے کیونکہ ان کا مقام و ماحول بالکل مختلف ہے، لہذا ان سے استدلال کرنا ایک قسم کی بکواس ہے، اس لئے کہ اس استدلال میں مختلف احوال کے درمیان جو معتد بہ فرق ہیں انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہيں ،جیسے کہ حالت جنگ اور حالت امن کا اختلاف، اور حالت جنگ کے کچھ مخصوص احکام ہیں جو حالت امن کے احکام سے بالکل جدا گانہ ہیں کیونکہ حالت امن میں خون، مال اور عزت محفوظ ہوتے ہیں، اور یہ ایک اہم اور جوہری فرق ہے اس فرق کے ہوتے ہوئے ان ہتھیاروں کے استعمال کے مسئلے کو فقہ کی کتابوں میں وارد شدہ ۔ دشمنوں پر شبخون مارنے یا انہیں ڈھال ڈال کر مارنے جیسے مسائل- میں ٹھونسنا کسی بھی طرح درست نہیں ، اور يہ قیاس سرا سر غلط ہے، نقل کردہ وہ مسائل اپنی جگہ پر درست ہیں اور وہ مسائل اسی موقع ومحل میں درست ہیں جہاں کے لئے فقہائے کرام نے انہیں خاص کیا ہے اور اسی صورت حال میں جس میں انہوں نے لاگو کیا ہے ۔ لیکن يہاں ساری کى ساری غلطی اس امر میں پنہاں ہے کہ ان درست احکام کو ان کے مواقع اور مناسبتوں سے نکال کر صورتحال، كيفيت اور حکم كے لحاظ سے بالکل مختلف مواقع اور مناسبتوں پر فٹ کیا گیا ہے.
اسی طرح ان ہتھیاروں کے استعمال کو حملہ آور سے لڑنے اور اسے مارنے کے مسئلے پر بھی قیاس كرنا درست نہیں ہے: کیونکہ یہ تو معلوم ہے کہ حملہ آور کا مقابلہ کرنے اور جہاد کے احکام کے باب میں کئی فرق ہیں، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ حملہ آور کو ہلکے سے ہلکے طریقے سے ہٹایا جائے گا، اگر بات سے ہٹانا ممکن ہو تو مار کر ہٹانا حرام ہوگا،اور اگر ہاتھ سے اس کو دور کرنا ممکن ہو تو تلوار سے ہٹانا حرام ہوگا اور اسی پر قیاس کرتے آیئے۔ لہذا اس کی روشنی میں بھی عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار کا استعمال قرین قیاس نہیں ہے.
یہاں جو مشرکوں پر شبخون مارنے اور گوپھن استعمال کرنے اور جلانے کے متعلق وارد روایتوں سے استدلال کیا جارہا ہے، اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار کے استعمال کو ان مسئلوں پر قیاس کیا جا رہاہے يہ تو درحقیقت بے جا قیاس ہے،کیونکہ دونوں مسئلوں کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے،اولا تو یہ کہ یہ احادیث جنگ کی حالت کے باب میں وارد ہیں، اور حالت جنگ اور غیر حالت جنگ میں بہت بڑا فرق ہے، پھر یہاں دونوں کے نتائج وآثار میں بھی بہت بڑا فرق ہے، گوپھن کے ذریعہ پتھروں کے پھینکنے کے آثار ونتائج اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار کے آثار ونتائج میں بے انتہا تفاوت ہے جیساکہ واضح و روشن ہے ، کیونکہ گوپھن کے ذریعہ پتھروں کے پھینکنے کے آثار ونتائج عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے آثار ونتائج کے مقابلے میں بالکل محدود ہے، مزید برآں احادیث مبارکہ میں مذکور واقعات حاکم وقت کی زیر نگرانی ہوئے تھے، اور یہ ایک نہایت ہی اہم اور بنیادی فرق ہے ليكن يہاں تو حاکم وقت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جا رہا ہے، اور چند لوگوں کی طرف سے من مانی اعلان جنگ کرکے جہاد کے نام پر پوری قوم وملت اور حکمرانوں پر تہمت باندھی جا رہی ہے، اسی طرح یہ روایتیں۔ بشرطیکہ صحیح ہوں۔ مخصوص اور انفرادی واقعات ہیں جن میں عموم نہیں ہے، اسی وجہ سے اور ان قولی نصوص کے پیش نظر جن میں عموم پایا جاتا ہے بعض علمائے کرام کا مذہب یہ ہے کہ شبخون مارنا، جلانا یا نذر آتش کرنا اور توڑ پھوڑ کرنا اصل میں نا جائز ہے.
بہرحال ہمارے خیال میں درست یہی ہے کہ عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار کے وہ تمام اقسام ممنوع ہیں جن سے عمومی آگ پیدا ہوتي ہیں،کیونکہ آگ سے جلانے کے بارے میں وارد قولی ممانعت کا تقاضا بھی یہی ہے، واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ کسی خاص وجہ سے اس کا حکم فرمایا تھا لیکن اس پر ابھی عمل بهى نہیں ہو پایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم کسی جنگی حالت میں فرمایا تھا. امام بخاری کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں وارد ہے: ''بے شک آگ: اس سے اللہ تعالی ہی عذاب دیتا ہے'' ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلانے سے منع فرمایا، اور یہ تو معلوم ہى ہے کہ عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار کی اکثریت عمومی آگ کا سبب بنتی ہے تو درست یہی ہے کہ جلانے سے ممانعت کی دلیل کے عموم کے پیش نظر اس کا استعمال مطلقا ہی ممنوع ہو بشمول حالت جنگ کے.
اس مسئلے کو دشمنوں پر شبخون مارنے کے مسئلے سے ملانا در حقیقت ایک قسم کا دھوکہ ہے،کیونکہ دشمنوں پر شبخون مارنے کا جواز فقہائے کرام کے نزدیک کئی شرطوں سے مشروط ہے: ایک تو یہ کہ جنگ کی حالت ہو اور جن پر شبخون مارا جارہا ہے وہ ایسا دشمن ہو جن کے ساتھ جنگ جائز ہے،بر خلاف ان لوگوں کے جنکا ہمارے ساتھ عہدوپیمان ہے اور جو صلح کے حکم میں ہیں لہذا جن کا ہمارے ساتھ صلح یا امن وامان کا وعدہ ہے یا صلح کی طرح کے اور کوئی بین الاقوامی معاہدات ہیں ان پر شبخون مارنا درست نہیں، کیونکہ ان میں شریک تمام فریق باہم ایک دوسرے سے جان ومال اور عزت و آبرو کے سلسلے میں مامون و محفوظ ہوچکے ہیں، اور جب ان پر شبخون مارنا ہی حرام ہوا تو ان پر عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار کا استعمال بدرجہء اولی حرام ہوگا.
اور جہاں تک انسانی ڈھال کی بات ہے تو اولا تو یہ جائز ہی نہیں ہے، اور اگر جائز بھی ہو تو وہ استثنائی اور جنگ وغیرہ کی صورت میں ہے اور اس میں بھی بہت کڑی کڑی شرطیں ہیں جنہیں فقہائے کرام نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے[ملاحظہ فرمائیں :البحر الرائق٥/ ٨٠،حاشیة ابن عابدین٣/٢٢٣،روضة الطالبین١٠/٢٣٩،مغنی المحتاج ٤/٢٢٣، المغنی لابن قدامه٨/٤٤٩،١٠/٣٨٦].
لہذا مذکورہ بالا دعوی بے بنیاد اور بے اصل ہے، زبانی جمع خرچ ہے، اور اس کا قول کرنا یا اس کی نشر واشاعت کی کوشش کرنا درحقیقت جرم کی حوصلہ افزائی کرنے اور روئے زمین پر فتنہ وفساد برپا کرنے کے مترادف ہے جس سے اللہ تبارک وتعالی نے منع فرمایا ہے، اور ایسی حرکت کرنے والے کو سخت ترین عذاب کی دھمکی دی ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (لَئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا)- اگر منافق اور جن کے دلوں میں بيماري ہے ، اور مدینہ میں جھوٹ اڑانے والے باز نہ آئے، تو ضرور ہم تمہیں ان پر شہ دیں گے، پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ ٹکیں گے مگر تھوڑے دن - [الاحزاب،٦٠]، اور اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ) - اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ، یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ - [الاعراف:٨٥]. اور مولی سبحانہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ، أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ ) - تو کیا تمہارے یہ توقعات نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو، یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کر دیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں - [محمد:٢٢،٢٣].

باقى اللہ سبحانہ تعالی زياده بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas