درخت كو پيشگى ميں كرايہ پر دينا

Egypt's Dar Al-Ifta

درخت كو پيشگى ميں كرايہ پر دينا

Question

ht: 150%; font-size: 11pt">زیر نمبر 1794مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر

مشتمل ہے:

كيا ميوه والے درخت كوکئی سال كےلئے پيشگى كرايہ پر ديناجائز ہے؟

 

Answer

      درخت كو كرايہ پر لينے كا قول حنابلہ میں سے حضرت حرب کرمانی اور حضرت ابو الوفاء بن عقیل کا مذہب ہے اور امام ابن تیمیہ نے اسی کو اختيار كيا ہے، چنانچہ انہوں نےحضرت سعید بن منصور كى روایت سے استدلال كيا ہے، جس روايت كوحضرت حرب کرمانی نے اپنے ''مسائل'' میں ان سے نقل کيا ہے- فرماتے ہیں: ہم سے عباد بن عباد نے ان سے ہشام بن عروہ نے ان سے ان كے والد نے بيان کیا: ''اسید بن حضیر فوت ہوئے اور ان پر چھ ہزار درہم کا قرضہ تھا، تو حضرت عمر نے ان کے قرضداروں کو بلایا، اور ان کی زمین کئی سالوں تک كےلئے ان سے قبول کروائىحالانكہاس زمین میں کھجور کے درخت اور دیگر قسم كے درخت موجود تھے''، اور یہ زمین کو کاشتکاری کےلئے کرایہ پر دینے اور دودھ والی کا اجرت پر دودھ پلانے جیسے مسائل کے زمرے میں آتا ہے.

یہاں پر کرایہ پر دینا اس لئے جائز ہوا۔ حالانکہ کرائے کا معاملہ تو منفعت سے متعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ فائدہ جو اصل چیز کے باقی رہتے ہوئے حاصل ہو اگر چہ عین ہو( جیسے درخت یا دودھ پلانے والی کا دودھ یا چوپایوں کی اون) لیکن یہ عین بھی منفعت کے حکم میں ہے اس لحاظ سے کہ یہ استعمال کرنے سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالی کی تخلیق سے پیدا ہوتی رہتی ہیں.
اس بنا پر اور سوال کى صورت كو مد نظر رکھتے ہوئے: پهل والے درختوں کے مالک اور دیگر دوسرے درختوں کے مالکان کےلئے لوگوں کى مجبورى كے پيش نظراس قول پر عمل كرنا جائز ہے وه درخت کو اس كو کرایہ پر دے سكتےہیں جو اس کی آبپاشی کرے اور اس کی پیوندکاری کرے اور اس کو نقصان سے بچائے اور اپنى محنت اور آبپاشی سے  أس سے پھل نکالے، لیکن مدت متعین ہونى چاہیے اور کرایہ بھی متعین ہونا چاہیے،  اس صورت میں یہ عمل اس حکم میں شامل نہیں ہوگا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پختگى كےظہور سے پہلے پھل كو بیچنے سے منع فرمایا ہے.

    باقى
اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
Share this:

Related Fatwas