گاڑیوں کا جامع انشورنس کا حکم
Question
ہم زیر نمبر ٣٢٤ سنہ ٢٠٠٦ درج درخواست پر مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے :
کیا شریعت میں حمل و نقل کی گاڑیوں کا مکمل انشورنس جائز ہے؟ تاکہ روڈ کے حادثات یا آتشزدگی یا ان گاڑیوں کی چوری ہونے کی صورت میں مالی معاوضہ مل سکے ؟
Answer
ماضی میں مصری دار الافتاء نے انشورنس پر ایک فتوی جاری کیا تھا جس میں حسب ذیل مضمون آیا تھا : چونکہ انشورنس بشمول اس کے مختلف اقسام کے نئے معاملات کے زمرے میں شامل ہے جسکے جواز اور عدم جواز کے بارے میں براہ راست کوئی شرعی تصریح موجود نہیں ہے – بالکل اسی طرح جس طرح بینکوں کا مسئلہ ہے - اس لئے اس کا کاروبار فقہ کے ماہرین کے اجتہادات اورعمومی نوعیت کی تصریحات کی روشنی میں کی گئی تحقیقات کے حوالے ہوا . مثال کے طور پر الله تبارک و تعالی کے اس ارشاد مبارک میں ہے : (وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ) [المائدة: 2] (اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو ، اور الله سے ڈرتے رہو بیشک الله کا عذاب سخت ہے.) (سورہ المائدہ:٢)
اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد : «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى» (رواه البخاري) (مسلمان ان کی باہمی الفت اور ان کی باہمی رحم دلی اور ان کی باہمی ہمدردی میں ایک ہی جسم کی طرح ہیں اگر اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی وجہ سے یکایک سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے . ) (امام بخاری نے اس کی روایت کی ہے ) وغیرہ وغیرہ اس سلسلے میں بکثرت وارد نصوص کی روشنی میں فقہائے کرام نے اجتہاد کیا ہے. انشورنس کی تین قسمیں ہیں: ١) لین دین کا انشورنس: اور یہ انشورنس افراد کے ایک گروپ یا تنظیموں کی طرف سے انجام دیا جاتا ہے تاکہ ایک دوسرے کے ممکنہ نقصان کے لئے معاوضہ فراہم کیا جاسکے.
٢) (سوشل) یا معاشرتی انشورنس: اور یہ انشورنس ایسے لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے جنکی کمائی پر اقتصاد کا انحصار ہوتا ہے، اور ان خطرات کے پیش نظر کیا جاتا ہے جنکا مستقبل میں سامنا ہو سکتا ہے، اور انشورنس کی یہ قسم باہمی سماجی امداد کے خیال پر مبنی ہے.
٣): تجارتی انشورنس: انشورنس کی یہ قسم مشترکہ سرمایہ کار کمپنیوں کی طرف سے انجام دی جاتی ہے جو اسی مقصد کے لئے قائم کی جاتی ہیں . پہلی اور دوسری قسم کے متعلق تقریبا پورا پورا اتفاق ہونے کے قریب ہے کہ یہ دونوں اسلامی شریعت کے اصولوں پر اترتی ہیں کیونکہ یہ دونوں اصل میں ایک عطیہ کی صورت ہیں اور نیکی اور تقوی میں باہمی تعاون ہے، اور مسلمانوں کے درمیان باہمی سماجی ہمدردی کے اصول کی تعمیل ہے اور جس میں منافعہ کمانے کا جذبہ بھی نہیں ہوتا ہے، اورلاعلمی یا دھوکہ دہی کے خدشے کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد قرار نہیں دیا جائے گا ، واضح رہے کہ ان دونوں صورتوں میں انشورنس کی ادا کردہ قسطوں سے بڑھکر لی جانے والی رقم سود نہیں ہوگی کیونکہ یہ اضافی رقم مدت کے بدلے میں نہیں ہے بلکہ وہ تو حادثات کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے ایک قسم کا عطیہ ہے .
تیسری قسم: تجارتی انشورنس - اور اسی میں لائف انشورنس بھی شامل ہے - اس کے بارے میں سخت تنازعہ اور اختلاف ہے: علمائے کرام کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کے معاملے میں دھوکہ کا پہلو ہونے کی وجہ سے حرام ہے ، اوران کی نظر میں اس میں جوا اور شرط اور سود کا شائبہ بھی ہے ، جبکہ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ تجارتی انشورنس بھی جائز ہے اور اس میں اسلامی شریعت کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہے ، کیونکہ یہ بھی بنیادی طور پر سماجی ہمدردی اور نیکی پر باہمی تعاون پر مبنی ہے ، اوراصل میں یہ بھی ایک عطیہ ہے ، لین دین نہیں ہے. آخرالذکر جماعت کی دلیل قرآن و سنت اور معقولی دلیل پر مبنی ہے، قرآن کی دلیل میں اس آیت مبارکہ کو پیش کرتے ہیں :ارشاد باری تعالی ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ﴾ [المائدة: 1] (اے ایمان والو! اپنے قول پورے کرو)(مائدہ:١) ان کا استدلال یہ ہے کہ "عقود" کا لفظ عمومی معنی کا حامل ہے جو سارے معاملات کو شامل ہے اور انہیں معاملات میں سے ایک انشورنس بھی ہے لہٰذا اس میں انشورنس سمیت دیگر تمام معاہدے شامل ہیں، اور اگر یہ معاملہ ناجائز ہوتا تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان فرما دیتے، اور جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمایا تو یہاں عمومی معنی ہی مراد ہوگا اور انشورنس کا معامله اس عام معنی کے تحت مندرج ہوگا . اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی ہے، عمرو بن یثربی ضمری سے روایت کی گئی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ میں مقام منی میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ میں شریک تھا، انہوں نے اپنی تقریر میں ارشاد فرمایا تھا: «کسی آدمی کے لئے اپنے بھائی کے مال میں سے جائزنہیں مگر وہی جو اس کی خوش دلی سے ہو » یہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کے حلال ہونے کا طریقہ یہ بتایا کہ خرچ کرنے والے کی خوش دلی شامل ہو اور باہمی رضامندی ہو، انشورنس میں بھی دونوں فریق مخصوص طریقہ پر مال کے لین دین پر باہم رضامند ہوتے ہیں لہٰذا حلال ہوگا . اور ان کی عقلی دلیل یہ ہے کہ انشورنس کی رقم تو انشورنس میں شامل ہونے والے کی طرف سے ایک قسم کا عطیہ ہے وہ اس طرح کہ وہ اپنی ادا کردہ قسط کو عطیہ کر دیتا ہے اور کمپنی کی طرف سے بھی ایک عطیہ ہے کیونکہ کمپنی انشورنس کی قیمت کو عطیہ کر دیتی ہے اور نقصانات کو تقسیم کرتی ہے اور نقصان زدہ کے بوجھ کو ہلکا کرنے پر تعاون کرتی ہے، اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے. اسی طرح ان حضرات نے عرف عام سے بھی استدلال کیا ہے کہ اس طرح کے معاملات پر لوگوں کا عمل بھی چل پڑا ہے اور عرف عام قانون سازی کے سرچشموں میں سے ایک سرچشمہ ہے جیسا کہ مشہور و معروف ہے اسی طرح انہوں نے "مصلحت مرسلہ" (یعنی ایسا مفاد جس سے شریعت خاموش ہے ) سے بھی استدلال کیا ہے . نیز تجارتی انشورنس اور معاونتی اور معاشرتی انشورنس کے درمیان کئی یکسانیت کے پہلو ہیں جنکے جواز پر اجماع ہے اور جو شریعت کے اصول کے موافق ہیں، اس کا بھی تقاضا یہی ہے کہ اس پر بھی ان دونوں کا ہی حکم جاری ہو لہٰذا حلال ہے. مزید یہ کہ انشورنس کے معاملے میں کوئی ممنوع ابہام بھی نہیں ہے کیونکہ یہ تو ایک عطیہ کا معاملہ ہے لین دین کا معاملہ تو ہے نہیں کہ ابہام کی وجہ سے ناجائز ہوجائے ، نیز اس میں جو ابہام ہے وہ شرکاء کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑے کا باعث نہیں بنتا ہے ، کیونکہ بکثرت لوگ اس معاملہ میں شریک ہوتے ہیں اور یہ معاملہ بہت پھیل چکا ہے ، ہر ہر شعبہ میں اس پر عمل ہورہا ہے ، اور جو چیز لوگوں میں اس طرح پھیل جائے اور لوگ بھی اس سے راضی ہوں اور تنازعات سے بھی پاک ہو اسکے ممنوع ہونے کا کوئی معقول سبب نہیں ہے . مزید یہ کہ شریعت میں یہ طے شدہ ہے کہ عطیات کے معاملوں میں نرمی سے کام لیا جاتا ہے اور بہت سارے ابہاموں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے بر عکس تجارتی معاملات کے جس میں تھوڑا بھی ابہام قابل قبول نہیں ہے . ملاحظہ فرمائیں (الفروق للقرافي طبعة دار إحياء الكتب العربية سنة 1344 هـ ج 1 ص 151، حاشية ابن عابدين ج 5 ص 416: 429.. والقواعد الفقهية لابن رجب (القاعدة الخامسة بعد المائة)، الموسوعة الفقهية حرف غ مادة غرر ج 31 ص 160)
نیز ابہام یا دھوکہ کا تصور تو جب ہوسکتا ہے اگر ایک شخص اور کمپنی کے درمیان انفرادی طور پر معاملہ ہو ، لیکن اب تو انشورنس تمام اقتصادی شعبوں کا جز بن گیا ہے، اور کمپنیاں خود اپنے ملازمین کا اجتماعی انشورنس کرانے لگی ہیں اور ہر فرد یہ جانتا ہے کہ کتنی رقم ادا کریگا اور پھر بعد میں کتنی رقم حاصل کریگا لہٰذا اس میں کوئی ایسا بڑا ابہام یا دھوکہ کا شائبہ نہیں رہا جو عدم جواز کی باعث بن سکے، اسی طرح انشورنس کے معاملے میں جوا کا مفہوم بھی نہیں پایا جاتا ہے کیونکہ جوا کا انحصار قسمت اور نصیبا پر ہوتا ہے جبکہ انشورنس تو باضابطہ اصولوں اور باقاعدہ منصوبوں پر مبنی ہے اسی طرح اس میں باضابطہ معاہدہ بھی ہوتا ہے .
''الشرق للتأمین '' اور اس طرح کی دیگر انشورنس کی کمپنیوں سے بشمول تمام انواع واقسام کے دستاویزات کی تحقیق اور چھان بین کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ ان کے اکثروبیشتر اصول و ضوابط انتظامی نوعیت کے قواعد ہیں جو انشورنس کی کمپنیوں کی جانب سے رکھی گئی ہے جن کو اگر معاملہ کرنے والا منظور کرلے تو ان کی پابندی ضروری ہوجاتی ہے، اور یہ اصول وقواعد مجموعی طور پر اسلامی شریعت کے منافی نہیں ہیں، لیکن ان میں سے کچھ قواعد و ضوابط ایسے ضرور ہیں کہ جن کو سرے سے کالعدم کرنا یا ان میں کچھ ایسی ترمیم کی جانی ضروری ہے جس کی بنیاد پر وہ اسلامی شریعت کے موافق ہوجائے اور انشورنس کمپنیوں کے نمائندوں کے ساتھ اجلاس میں طے شدہ اصول کے مطابق ہوجائے، یہ اجلاس مفتی اعظم مصر کی زیر صدارت مصری دار الافتاء میں بتاریخ ١٩٩٧/٣/٢٥منعقد ہوا تھا. اور وہ قابل ترمیم فقرے حسب ذیل ہیں:
١۔ جس فقرے کے مضمون میں ہے:''تمام قسطوں کو بلاکم وکاست واپس کردیا جائے گا اگر وہ شخص جس کا انشورنس ہوا ہے انشورنس کی متعینہ مدت کے اختتام کے وقت بقید حیات ہو'' اس فقرے کی ترمیم حسب ذیل مشمولات میں ہونی چاہئے'' تمام قسطوں کو اورسرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل شدہ فوائد کو بلا کم وکاست واپس کردیا جائے گا اگر وہ شخص جس کا انشورنس ہوا ہے انشورنس کی متعینہ مدت کے اختتام کے وقت بقید حیات ہو اور کمپنی نے جو بھی انتظامی کام انجام دئے تھے ان کے معاوضے کو متعین فیصد کے لحاظ سے منہا کرلیا جائے''
٢۔ دسواں فقرہ جس کا مضمون یہ ہے''اگر اتفاقا ایسا ہوجائے کہ رجسٹری بھیجنے کے باوجود معاملہ کر نے والے نے مقررہ مدت میں قسط کو ادا نہیں کیا اور پہلے کے تینوں سالوں کی قسطیں بھی مکمل طور پر نہیں ادا کی گئیں تھیں تو انشورنس کا یہ معاہدہ کالعدم سمجھا جائے گا اور اس کی تنبیہ بھی لازمی نہیں ہوگی، اور اداکردہ قسط کمپنی کی کمائی کردہ حق سمجھی جائے گی''
اس مضمون کو ترمیم کرکے یوں کیا جانا چاہئے:''..........اور ادا کردہ قسطیں معاملہ کرنے والے کو واپس کردی جائیں گی اور اس میں سے کمپنی کی طرف سے پیش کردہ خدمات کے معاوضے میں دس فیصد سے زیادہ نہیں کاٹی جائے گی'' تاکہ کمپنی لوگوں کے مالوں پر باطل طریقے سے قابض نہ ہو۔
٣۔''انشورنس کے معاہدہ سے پید ہونے والے تمام حقوق کا مطالبہ اس صورت میں ساقط ہوجائے گا اگر انشورنس کے حقدار تقاضا نہ کریں ، یا کمپنی کو وفات پر دلالت کرنے والے شواہد نہ پیش کریں'' اس فقرے کو کالعدم کرنا ضروری ہے ، کیونکہ ایک حق جب ثابت ہوگیا تو کسی بھی صورت میں ساقط نہیں ہوگا اگرچہ انشورنس کے مالکین اس کا تقاضا نہ کریں، اور دس سال گزرجانے کے بعد وہ مال مسلمانوں کے بیت المال کو حوالہ کردیا جائے گا۔
اسی قاعدہ کا دوسرا فقرہ جس میں آیا ہے:''..........اسی طرح وفات کے واقع ہونے کے وقت سے تین سال گزرجانے کی وجہ بات پرانی ہوجانے سے بھی حقدار کا حق ساقط ہوجائے گا اور وہ اس معاہدہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حقوق کے تقاضے کے لئے کمپنی کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا حق نہیں رکھیں گے'' اس فقرہ میں حسب ذیل ترمیم کرکے یوں کردینا چاہئے( ......تینتیس سال گزرجانے کے بعد تقاضا کا حق ساقط ہوجائے گا) کیونکہ اسلامی شریعت کے فقہائے کرام کے نزدیک شہری حقوق میں مقدمہ دائر کرنے میں کوتاہی سے کسی بھی مسئلے کےسرد پڑجانے یا پرانی ہوجانے کی مدت ہے.
بہرحال سوال مذکور کی صورت میں انشورنس بشمول تمام اقسام ایک معاشرتی ضرورت بن چکی ہے، اور زندگی کے حالات کے بھی تقاضے بھی کچھ اسی طرح ہیں جن سے بے نیازی ممکن نہیں رہی، کیونکہ نجی اور عام کارخانوں اوراقتصادی کمپنیوں میں کام کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے، اور کمپنی اپنی اپنی پونجی کا تحفظ کرتی ہے تاکہ اس اقتصاد کی حفاظت کے سلسلے میں اپنا وابستہ کردار ادا کرسکے کیونکہ وہی زندگی کی روح رواں ہے ، اسی طرح اپنے ملازمین کا بھی تحفظ کرتی ہے تاکہ حاضر ومستقبل دونوں میں ان کی زندگی محفوظ رہیں، اور انشورنس کا مقصد فائدہ یا ناجائز کمائی کرنا نہیں ہے.
بلکہ صحیح تو یہی ہے کہ اس کا مقصد باہمی مالی تعاون اور ایک دوسرے کی امداد کرنا اور ایک دوسرے کو نصرت وحمایت فراہم کرنا ہے تاکہ معاشرے کے افراد کو پیش آنے والے حادثات اور خطروں کو دور کیا جاسکے اور انشورنس تو بالجبر وصول کیا جانے والا کوئی ٹیکس تو ہے نہیں بلکہ وہ تو ایک قسم کا نیکی اور ایثار پر ایک دوسرے کی اعانت اور مدد کی فراہمی ہے اور نیکی اور ایثار کا تو اسلام میں واضح حکم موجود ہے ، اور دنیا کے سارے ممالک نے اپنی قوموں کی ترقی اور اپنے شہریوں کے فلاح و بہبود کے لئے انشورنس کے نظام کو اپنایا ہے اور مذھب اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں کیا ہے کیونکہ اسلام تو ترقی ، تهذیب اور ضابطہ کا ایک مذھب ہے ، دور جدید و قدیم میں اسلامی دنیا کے ہر ہر ملک میں ایسے مسلم علمائے کرام پائے جاتے رہے ہیں جنہوں نے اس کے جواز و حلال کا فتوی دیا اور ان کے وہی دلائل ہیں جن میں کچھ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے .
اور مصری دار الافتا کی رائے یہ ہے کہ انشورنس کے تمام اقسام و انواع میں سے کسی بھی قسم کے ساتھ معاملہ کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، بلکہ یہ امید کی جاتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کیا جائے تاکہ جو لوگ انشورنس میں شامل نہیں ہوسکے وہ بھی شامل ہو جائیں، اور اس کی قسط ماہانہ یا سالانہ معقول رقم پر مبنی ہو اور الزامی نوعیت کی ہو تاکہ سارے لوگ جمع کرنے اور پیسہ اٹھا رکھنے کے عادی ہو جائیں اور ان کی جمع کردہ قسطیں انکے منافعے کے ساتھ انہیں واپس ملیں جن سے انہیں خود بھی فائدہ ہو اور انکے ملکوں کا بھی بھلا ہو، کیونکہ ترقی یافتہ قومیں اور با حیثیت معاشرے وہی ہیں جو اپنے فرزندوں میں اٹھا رکھنے کا جذبہ پھونکتے ہیں اور اپنے مذھب اور اپنی مستقبل کی بھلائی کے لئے کام کرنے پر لوگوں کو آمادہ کرتے ہیں .
اور اللہ سبحانہ و تعالی ہی بہتر جاننے والا ہے .