بچے کا نسب ثابت کرنے کا شرعی حکم
Question
Answer
یہ بات شریعت میں طے شدہ ہے کہ بچے اور اس کی ماں کے درمیان نسب طبیعی طور پر ثابت ہوتا ہے، اور اسی چیز کا پتہ ڈی، این ، اے ، ٹیسٹ سے لگایا جاتا ہے جس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ بچہ کس مرد اور کس عورت کے نطفے سے بنا ہے ، مگر بچے کا نسب باپ کے ساتھ صرف شرعی طریقے سے ہی ثابت ہوتا ہے، فطرتی طریقے سے ثابت نہیں ہوتا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ زنا سے پیدا شدہ بچہ زنا کار کا بیٹا نہیں سمجھا جائیگا، چونکہ اس حالت میں تو بغیر نکاح کے ہی مرد اور عورت کے درمیان ملاپ ہوا ہے، مگر وہ بچہ طبیعی لحاظ سے زنا کار عورت کا بیٹا ہے، کیونکہ اسی عورت نے اس بچے کو اپنے پیٹ میں لیا ہے اور اسی کی پیٹ سے وہ پیدا بھی ہوا ہے، تو اس پر محرم ہونے اور میراث وغیرہ جیسے مسائل میں اسی جزئیت کے احکام مرتب ہوتے ہیں، اور بچے کا نسب باپ کے ساتھ صرف اورصرف اسی وقت ثابت ہو سکتا ہے جب اس مرد کا ملاپ بچے کی ماں کے ساتھ صحیح عقد نكاح کے بعد یا کم سے کم عقد فاسد کے بعد، یا شبہ کی وطی (ملاپ ) میں ہوا ہو، اور اگر صحیح عقد نہ پایا جائے تو اجماع امت کے مطابق شرعی لحاظ سے نسب ثابت نہیں ہوتا ہے، اور یہی بات مصری قانون میں بھی پائی جاتی ہے.
اس بنا پر نسب کا ثبوت یا تو صحیح شادی کے عقد یا فاسد عقد یا شبہ کی وطی (ملاپ )کے نتیجے میں ہی ہوتا ہے، اور قاضی پر لازمی ہے کہ نسب ثابت کرنے میں ہر طریقے کو بروئے کار لائے، اور عدالت کے لیے ضروری ہے کہ جب اس پر یہ بات واضح ہو جائے یا یہ یقین ہو جائے کہ بچہ صحیح شادی سے پیدا ہوا ہے تو نسب کے ثابت ہونے کا حکم صادر کر دیں اور اگر اس کے ہاں نہ کسی عقد صحیح کا ثبوت ہو اور نہ ہی کسی ایسے ناقص عقد جس کے ارکان یا شروط پورے نہ ہوتے ہوں کا ثبوت ہو سکے ، تو اس پر لازمی ہے کہ اس بچے کا نسب اس آدمی سے ثابت نہ کرے، حتی کہ اگر ڈی ، این ، اے ، ٹیسٹ سے بھی ثابت ہو جائے کہ یہ بچہ اسی مرد سے ہے، کیونکہ نسب صرف شریعت کے ذریعے سے ہی ثابت ہوتا ہے ، طبیعت کے ذریعے سے نہیں.
و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم.