"تاوان قبول کرنے" کا شرعی حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

"تاوان قبول کرنے" کا شرعی حکم

Question

اگر کوئی مسلمان دوسروں کا کوئی مال تلف کر دے تو کیا اس پر تاوان دینا واجب ہے، اور اس تاوان کو قبول کرنے کا کیا حکم ہے؟

Answer

تاوان لینا، جسے بعض لوگ "عوض" کہتے ہیں، اگر اس کا فیصلہ اہلِ تخصص مثلاْ عدالتی حکام یا تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والوں نے کیا ہو، تو شرعاً اسے لینا اور فائدہ اٹھانا جائز ہے اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اور اس امر سے تاوان میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ  عمداً تلف کیا گیا ہے یا کہ خطاً، تلف کرنے والا بچہ ہے یا کہ پاگل ہے، سویا ہوا ہے یا جاہل ہے، اس کا تاوان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ فقہاء کرام تاوان کے جواز پو متفق ہیں تاکہ حقوق محفوظ رہ سکیں اور اموال کو زیادتی سے بچایا جا سکے جن سے زندگی قائم ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ تلف کرنا تاوان کے أسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا مال جان بوجھ کر یا غلطی سے تکف کر دے تو اس پر تاوان واجب ہے اور مثلی چیزوں میں اموال کا تاوان بالمثل ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور اگر تم بدلہ لو تو اتنا بدلہ لو جتنی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہے‘‘۔ (النحل: 126) اور غیر مثلی چیزوں میں تاوان اس چیز کی قیمت کے ساتھ ہوتا ہے، اور قیمت کا اندازہ تلف کے دن اس کی قیمت سے لگایا جائے گا، اور قیمت مقرر کرنے کے معاملے میں جج یا اس کے قائم مقام شخص کی طرف رجوع کیا جائے گا۔

Share this:

Related Fatwas