انسان کے فائدے کی خاطر حیوانوں پر سائنسی تجربے کرنے میں خنزیر کے خلایا کا استعمال
Question
براہ کرم ہمیں مندرجہ ذیل دو مادوں کے بارے میں مطلع فرمائیں ، کیا ان کے استعمال میں کوئی دینی یا اخلاقی ممانعت پائی جاتی ہے:
) UBM(urinary bladder matrix) یاSIS(smal intestine submucosa)
یہ دونوں یہ دو مادے ملے ہوئے ایسے خلیے یا ریشے ہیں جو خنزیر سے نکالے جاتے ہیں۔ بعد میں سائینسی تجربات میں استعمال کیے جانے والے حیوانوں - خرگوش وغیرہ - پر ان کا تجربہ کیا جاتا ہے تاکہ زندہ خلایا کی تجدید نو کے بارے میں اس مادے کی تاثیر کے بارے میں پتہ لگایا جا سکے، واضح رہے کہ ا نسان کے علاج میں اس جیسے مادے کے استعمال کے سلسلے میں ابھی یہ ابتدائی اقدامات ہیں لیکن بعد میں خنزیر کے خلیے کے بدلے یہی ریشے دوسرے حیوانوں سے حاصل کئے جائیں گے لیکن ابھی امریکی بازاروں میں خنزیر کے ہی خلیے دستیاب ہیں.
Answer
اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لَّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ) – اور اس نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے ۔ یہ سب اسی کی طرف سے ہے، بے شک اس میں غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں - [سورہ جاثیہ: ١٣]، نیز فرماتا ہے: (هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً( - وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لیے پیدا کیا - [سورہ بقرہ: ٢٩]، یہ دونوں آیتیں اور ان کے علاوہ دیگر شرعی نصوص اپنے مدلول کے ضمن میں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی کے واسطے اور زمین کی آبادکاری کے لئے پیدا کیا ہے اور اسے یہ شرف بخشا کہ اپنے ہاتھوں سے اسے بنایا اور اس میں اپنی روح پھونکی ۔ پھر فرشتوں سے سجدہ کروایا، اللہ تعالیٰ نے اس منفرد مخلوق کے واسطے زمینوں اور آسمانوں کی ساری چیزوں کو مسخر کر دیا ہے، یعنی خواہ حیوانات ہوں یا جمادات ہوں یا ان کے علاوہ دیگر مخلوقات ان سب چیزوں کو سبحانہ و تعالی نے اپنى مشیئت سے اس انسان کے تابع اور فرماں بردار بنا دیا ہے ۔ اور اس کے لئے مسخر کر دیا ہے، تاکہ انسان یہ عظیم کام اور بڑی ذمہ داری انجام دے سکے.
جب معاملہ ایسا ہے تو حقیر مخلوق تو دوسری مخلوقات کی بنسبت ابن آدم کے لیے مسخر اور تابع ہونے کی بدرجہ اولی مستحق ہے ، اور انہیں ادنی مخلوقات میں سے خنزیر بھی ہے جو جمہور علمائے کرام کے نزدیک سراسر نا پاک ہے، اگر اس پر یا اس کے خلایا پر تجربات کرنے سے عام انسانیت کو کوئی فائدہ پہنچنے کی امید ہو اور یہ فائدہ اس کے علاوہ دیگر حیوانات میں نہ پایا جاتا ہو، یا پایا تو جاتا ہو مگر خنزیر پر تجربات کے محصول سے کم مقدار میں ہو تو یہ تجربات جائز ہی نہیں بلکہ مستحب یا واجب کے درجے کو بھی پہنچ سکتے ہیں ۔ .
اسلام نے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے اور بہت ساری آیات اور احادیث میں علمائے کرام کی خوبیاں بیان کی ہیں ، ان نصوص میں اللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی ہے: (إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء) - بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں - [سورہ فاطر: ٢٨]، اور مولی سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ) - بے شک اس میں جاننے والوں کے لیے نشانیاں ہے - [سورہ روم : ٢٢]، نیز اللہ بزرگ و برتر کا ارشاد ہے: (قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ ) - فرمادیجے کہ تم دیکھو تو آسمانوں اور زمینوں میں کیا ہے - [سورہ یونس: ١٠١]، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ''جو کوئی ایسا راستہ چلے جس میں وہ علم طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلائے گا، اور بے شک فرشتے فرط مسرت میں طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، اور جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمینوں میں ہیں، یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی عالم کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتی ہیں، اور بے شک عالم کو عابد پر وہی برتری حاصل ہے جو برتری چودہویں کے چاند کو سارے ستاروں پر حاصل ہوتی ہے، اور بے شک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں، اور انبیاء کرام نے کوئی دینار اور کوئی درہم وراثت نہیں چھوڑی ہے بلکہ علم کی وراثت چھوڑی ہے، تو جس نے اسے حاصل کیا اس نے بڑا نصیب پايا''. اس حدیث کی روایت ابو داود اور ترمذی نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے کی ہے. اور کسی چیز پر حکم لگانا تب تک ممکن ہی نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ چیز معلوم نہ ہو جائے، اور یہ بات صرف تحصیل علم کے ذریعے ہو سکتی ہے، کیونکہ مذکورہ بالا حیوان یا دیگر حیوانات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور اس کے استعمال کے فائدے یا نقصانات سے باخبر ہونا صرف اسی وقت ممکن ہے جب اس چیز سے سابقہ پڑے اور اس سے تعامل ہو. اگر لباریٹری میں خنزیر پر تجربہ کرنے کے لیے صرف یہ پیش نظر ہو کہ شریعت میں اس کے حرام ہونے کی کچھ حکمتیں تلاش کی جائیں تو یہ سبب بھی اس عمل کے جواز کے لئے کافی ہوتا اور یہ مقصد اس کو لباریٹری اور تجربات میں استعمال کے لیے جائز بنا دیتا چہ جائےکہ یہاں اس سے بڑا مقصد موجود ہے. لہذا سوال ميں مذکورہ اغراض کے واسطے یہ تجربات کرنے میں شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے، مگر اس بات کا ٰخیال کرنا ضروری ہے کہ نمی کی حالت میں جہاں تک ہو سکے اس کو بلا واسطہ چھونے سے بچا جائے یا رطوبت کو کسی حائل کے بغیر پکڑنے سے احتراز کیا جائے ، کیونکہ جمہور علماء کرام کے نزدیک یہ نا پاک ہے جیسا کہ بیان ہوا ہے، اور بلا ضرورت نجاست سے لت پت ہونا جائز نہیں ہے، اور اگر مجبورا رطوبت کو چھونا بھی پڑ جائے تو اس صورت میں حرج اور تنگی سے نکلنے کے لئے اس کی پاکی میں امام مالک کے مذہب کی تقلید کرنی چاہئے.
باقی اللہ سبحانہ و تعالی زدیادہ بہتر جاننے والا ہے.