دنیا کی دار اسلام اور دار حرب میں ت...

Egypt's Dar Al-Ifta

دنیا کی دار اسلام اور دار حرب میں تقسیم، اور اس کی دلیل

Question

دار اسلام اور دار حرب کا اسلام میں کیا معنی ہے اور کیا اس تقسیم کی کتاب یا سنت میں کوئی دلیل ہے؟

Answer

بہت سی تکفیری دہشت گرد تنظیموں کا نظریہ دار اسلام اور دار حرب کے تصور سمیت متعدد تصورات سے متعلق بہت سےاحکام کی گمراہ اور غلط فہم پر مبنی ہے ۔اور یہ ایسے تصورات اور مسائل ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں، لہٰذا دنیا کی دار اسلام اور دار حرب میں تقسیم ہجرت اور جہاد سے متعلق احکام پر مشتمل ہے۔ دنیا کے ممالک کو اسلامی اور غیر اسلامی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مسئلہ فقہ میں سیاسی نوعیت کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ دنیا کے متعلق اسلامی تصور اور جہاد کے مسائل سے ربط رکھتا ہے اور مذہبی اقلیتوں کے احکام بھی اس سے جڑے ہوۓ ہیں اس لئے کہ یہی بین الاقوامی تعلقات کے متعلق فقہی تصور کی بنیاد ہے۔

قرآن کریم یا سنتِ مطہرہ میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جو ایمان اور کفر پر یا امن اور جنگ کے مطابق دنیا کے ممالک کی تقسیم کو بیان کرتی ہو یا اس کی طرف اشارہ کرتی ہو۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ تقسیم اس وقت کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان باہمی تعلقات کا ایک فقہی نقطۂ نظر ہے، جن میں اگر معاہدہ موجود نہیں ہوتا تو اکثر اوقات ان معاملات میں جنگ ہی واحد حکم ہوتی تھی، لہٰذا یہ تقسیم شریعت کی اساس پر نہیں بلکہ حالِ واقع کی بنیاد پر ہے ، جس کا مقصد دنیا کوایسی دو ریاستوں، یا دو سیاسی بلاکس کے تحت کرنا نہیں تھا جن میں سے ایک میں سارے اسلامی ممالک شامل ہوں اور ایک ہی ریاست ان پر حکومت کرے، اور دوسرے بلاک میں باقی ممالک شامل شامل ہوں اور ایک ہی ریاست ان پر حکومت کرے، بلکہ یہ تقسیم  اسے لئےتھی کہ مسلمانوں کے لیے ان کے ملک میں امن وسلامتی سے رہتے تھے، اور اپنے ملک سے باہر خوف اور عداوت  پائی جاتی تھی۔

Share this:

Related Fatwas