قرضہ وصول ہونے تک رہن میں رکھی ہوئی...

Egypt's Dar Al-Ifta

قرضہ وصول ہونے تک رہن میں رکھی ہوئی زمین سے قرضہ دینے والے کا مستفید ہونا

Question

سال ٢٠٠٧ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

کیا قرضہ دینے والا " رہن " میں رکھی ہوئی زمین سے جو بطور ضمانت اس کے پاس رکھی گئی ہو قرض کی وصولی تک مستفید ہوسکتا ہے؟ یا اگر قرضدار یا زمین کا مالک مقررہ وقت پر قرض ادا کرنے سے انکار کر دے تو کیا یہ امر اس بات کا جواز بن سکتا ہے کہ وه قرضہ لوٹانے تک اس زمین سے فائدہ اٹھائے؟

Answer

واضح رہے کہ " رہن " قرآن و سنت کی رو سے جائز ہے، اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے:( فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ) - تو با قبضہ رہن رکھ لیا کرو- [ سورہ بقرہ: 283]، اور جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ تیس صاع جوَ کے بدلے میں ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی. شیخین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے اس حدیث کی روایت کی ہے، اور بخاری، ترمذی ، نسائی اور احمد نے ابن عباس سے روایت کی ہے، اور ابن ماجہ اور احمد نے حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی ہے.

جہاں تک قرضہ دینے والے کے رہن سے مستفید ہونے کی بات ہے تو معلوم رہنا چاہئے کہ یہ امر نا جائز ہے البتہ اس کے جواز کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ حاصل شدہ منفعت کی قیمت ادا کر دے، ورنہ اس کا یہ عمل نا حق دوسروں کا مال کھانے کے زمرے میں داخل ہے ، اور اللہ تعالی نے ایسی حرکت سے منع فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًا) - اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کے اموال آپس میں نا حق مت کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضامندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے اور جو دشمنی اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم عنقریب اسے دوزخ میں ڈال دیں گے اور یہ اللہ پر آسان ہے-[ سورہ نساء : ٢٩،٣٠]، کیونکہ اس صورت میں وہ ایسا قرضہ ہے جو منافعہ کا باعث ہے اور یہ سود ہے.

اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ قرض لینے والے کا وقتِ مقرر پر قرض نہ لوٹانا یا اس میں تاخیر کرنا اس بات کا جواز نہیں بنتا کہ قرض دینے والا قرض کی وصولی تک رہن کی زمین سے مستفید ہو.

لہذا اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ زمین رہن میں رکھنا تو جائز ہے لیکن قرض دینے والے کا اس سے استفادہ کرنا درست نہیں، لیکن اگر قرض دینے والا اس زمین میں کاشت کرتا ہے تو اسے اس زمین کی اجرت مثل یعنی اس علاقے میں رائج قیمتوں کے مطابق قيمت ادا کرنا ضروری ہے ، یا رہن رکھنے والے کے قرضے میں سے زمین کی اجرت کی قیمت کم کر دینی ضروری ہے.

اگر قرضدار قرضہ ادا کرنے میں دیر کر دے تو قرضہ دینے والے کو رہن کی زمین میں سے صرف اس قدر بیچنا روا ہے جس سے قرض ادا ہو جائے، یا اسے فراخی تک کی مہلت دے دے اور مہلت دینا بہت ہی اچھی خصلت ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ) - اور اگر قرضدار تنگ دست ہو تو فراخی تک اسے مہلت دو- [ سورہ بقرہ : ٢٨٠]. یا اگر ہو سکتا ہے تو سرے سے قرضہ ہی معاف کر دے جو کہ مذکورہ خصلت سے بھی زیادہ افضل ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ) - اور قرض بالکل معاف کر دینا تمہارے لیے بہتر ہے- [ سورہ بقرہ: ٢٨٠].

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے
 

Share this:

Related Fatwas