زیر تربیت ڈاکٹروں کا دوران تربی...

Egypt's Dar Al-Ifta

زیر تربیت ڈاکٹروں کا دوران تربیت اجرت پر علاج کرنا

Question

سال ٢٠٠٧ ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

کیا زیر تربیت ڈاکٹروں کے لئے ٹرینیگ کے دوران فیس لے کر علاج کرنا جائز ہے، اگر اسے یہ غالب گمان ہو کہ اس کے ہاتھ پر بیماروں کو نقصان نہیں پہنچے گا، کیونکہ اس نے اسی میدان کے ایک شعبے میں مطلوبہ مہارت حاصل کر لی ہے اور اسی شعبے میں عملی طور پر علاج کرنا چاہتا ہے، واضح رہے کہ اس طرح کی ٹریننگ صرف ایک شعبے میں ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں ہوتی رہتی ہیں،چنانچہ دو مہینے پیٹ کے امراض والے شعبے میں ٹریننگ کرائی جاتی ہے پھر دو ماہ یا دو ماہ سے زیادہ دوسرے شعبے میں ٹریننگ کرائی جاتی ہیں ، بہر حال سوال یہ ہے کہ کیا اس میدان میں جس میں اس نے ٹریننگ کی تکمیل کر لی ہے تو کیا سال کے اختتام سے پہلے ہى طبابت کا پیشہ انجام دے سکتا ہے؟.

Answer

آج کل کے سماج اور ماحول میں پیشہ ء طب کے قواعد و ضوابط مقرر ہیں اور یہ پیشہ کچھ قوانین کا پابند ہے ،اور اصل میں یہ قوانین غیر جانب دارانہ اور انصاف پر مبنی ہیں، نہ ہى ان میں کسی خاص شخص کو مد نظر رکھا گیا ہے اور نہ ہی ان میں کسی خاص شخص کی مصلحت کی رعایت کی گئی ہے ، بلکہ یہ قوانین مصلحت عامہ کے لئے وضع کئے گئے ہیں، اور شریعت کا بھی یہی قاعدہ ہے کہ اگر عام مصلحت خاص مصلحت کے منافی ہو تو عام مصلحت کو فوقیت دی جائیگی، اور یہ بھی شرعی قاعدہ ہے کہ حاکم کا تصرف مصلحت کے دائرے میں ہوتا ہے، اور بہت ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ میں علاج کرنے یا دوائیاں بنانے یا فن تعمیرات کی صلاحیت رکھتا ہو، یا ایسے کاموں کی قدرت اپنے آپ میں محسوس کرتا ہو جن کا اثر دوسروں تک متعدی ہوتا ہے صرف اس کی ذات کی حد تک محدود نہیں رہتا ، تو واضح رہے کہ کسی شخص کا اپنے آپ کے بارے میں اپنا ذاتی حکم معتبر نہیں ہے، اور یہ ہرگز جائز نہیں کہ کوئی شخص لوگوں کو یا ان کی ارواح یا ان کے اجسام کو تختہء مشق بنائے یا انہیں اپنے ذاتی ظن و تخمین یا قیاس و اندازہ کی آزمائش کا سامان بنائے یا اپنى خود ساختہ رائے کا شکار بنائے، تمام مخلوق جمادات ہو یا حیوانات سب کا خیال رکھنا ضروری ہے پھر انسان کی کس قدر عزت ہونی چاہئے انسان کے متعلق اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:( وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ) - اور بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی - [ سورہ اسراء : ٧٠]، اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہيں''. یہ حدیث متفق علیہ ہے. اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعے پر فرمایا: ''ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اس کی جان ، اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو''. اس حدیث کی امام مسلم وغیرہ نے روایت کی ہے. واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں اپنے گمان کی تجربہ گاہ نہ بنایا جائے اور ان پر مشق اور آزمائش نہ کى جائے اگر چہ گمان کتنا ہی پختہ کیوں نہ ہو اور اندازہ کتنا ہی یقینی کیوں نہ ہو، بلکہ اس سلسلے میں اس پیشہ کے ان قواعد و ضوابط کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے جو سب کے لئے واجب العمل ہیں اور سب کی بہبود کے لئے وضع کئے گئے ہیں، ان قواعد کا اصلی تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو اور کم سے کم نقصان ہو، مگر شیطان اولاد آدم کے دل و دماغ سے کھیلتا ہے ، اس کے سامنے اس کی ذاتی مصلحت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، اسی وجہ سے عام مصلحت اس کی نظر میں نہایت ہی حقیر اور چھوٹی دکھائی دینے لگتی ہے، اور اگر معاملہ انسان کے شخصی گمان اور ذاتی ترجیحات کے حوالے کر دیا جائے تو ایک قوم دوسری قوم کا خون تک روا کر لے گی !، اور ان كا مال غنیمت بنا لے گی! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا) - اور اس گمان میں ہیں کہ وہ اچھا کام کرتے ہیں - [سورہ کھف : 104]، كسى قوم کی تہذیب اور كسى سماج کی ترقی در اصل اس کے افراد کے کارناموں کی مرہون منت ہو تى ہے، اور ملکوں کی تباہی اور شہروں کی بربادی درحقیقت افراد کا سماج کے اصول و قوانین کی پابندی سے نکلنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہيں.

لہذا طب میں زیر تعلیم اس طالب علم اور دوسرے کسی بھی طالب علم کے لئے ہرگز یہ جائز نہیں ہے کہ قانونی دائرے اور یونین کے آداب کے دائرے سے باہر یہ پیشہ انجام دے. اگرچہ طالب علم کتنا ہی مہذب اور کیسا ہی تجربہ کار اور علم طب کا ماہر ہی کیوں نہ ہو.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas