شادی کے اخراجات سے عاجز شخص کو زکوۃ...

Egypt's Dar Al-Ifta

شادی کے اخراجات سے عاجز شخص کو زکوۃ دینا

Question

سال ٢٠٠٨ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

ایک سوسائيٹی کی انتظامیہ زکوۃ ، خیرات اور عطیات جمع کر كے مستحقین پر صرف کرتی ہے، اس کے پاس کئی محتاج جوانوں کی طرف سے شادی کے اخراجات پورا کرنے کے لئے تعاون کی درخواستین موصول ہوتی رہتی ہیں، اور شادی کی تکمیل کے لئے نقدی اور غیر نقدی دونوں طرح کے تعاون کا مطالبہ ہوتا رہتا ہے ، تو کیا زکوۃ کے مال سے ایسا تعاون کرنا جائز ہے؟

Answer

اگر کوئی شخص شادی کا خواہشمند ہو لیکن اس کے اخراجات برداشت کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے تعاون کے لئے زکوۃ دینا جائز ہے، واضح رہے کہ مالکی اور حنبلی علماء کی ایک جماعت نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے، چنانچہ ایک حنبلی عالم کہتے ہیں: اگر کسی حاجتمند کے پاس بیوی نہ ہو اور اسے شادی کی ضرورت بھی ہو اور صورت یہ ہو کہ اس کے پاس کچھ اخراجات تو ہوں لیکن وہ شادی کے لیے نا کافی پڑ رہے ہوں تو ایسے شخص کو شادی کے اخراجات مکمل کرنے کے لئے زکوۃ کا مال دینا جائز ہے تاکہ وہ زکوۃ کے ذریعے اس کفایت کے درجے کو پہونچ سکے جو شادی کے لئے درکار ہے. '' حاشیۃ الروض المربع'' (١/٤٠٠).
نيز امام حطاب مالکی ''مواہب الجلیل فی شرح مختصر خلیل''(٢/٣٤٧) میں(فرع کے عنوان کے تحت) لکھتے ہیں، " امام برزلی کا بیان ہے کہ یتیم لڑکی کو لوازمات نکاح پر خرچ کرنے کے لئے زکوۃ دی جائیگی، اور محجور( یعنی مالی تصرف سے روک دیے گئے شخص)کے حق میں قاضی کى صوابدید کے مطابق اس کے مال میں تصرف ہوگا ، لہذ ا اگر کسی کے پاس نکاح کے لئے درکار سامان اور زیورات نہ ہوں تو اسے زکوۃ کے مال سے دیا جانا چاہئے اور وہ بدرجہ اولی اس کا مستحق ہے، یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے''.
حضرت عمر بن عبد العزیز کے بارے میں آیا ہے کہ انہوں نے منادی کو حکم دیا اور یہ اعلان کروایا: ''مسکین لوگ کہاں ہیں؟ قرضدار لوگ کہاں ہیں؟ نکاح کے خواہشمند لوگ کہاں ہیں؟'' یعنی جو لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں، اور یہ اعلان اس لئے کروایا تھا کہ بیت المال سے ان كو امداد دی جائے.
واضح رہے کہ زکوۃ صرف مسلمانوں کے لئے ہے کیونکہ زکوۃ مسلمانوں کے دولتمندوں سے لی جاتی ہے اور ان کے غریبوں میں بانٹى جاتی ہے. مزید یہ کہ زکوۃ کی اصل یہی ہے کہ نقدی صورت میں دی جائے، لیکن اگر غیر نقدی چیز کی ضرورت ہو اور اس میں حاجتمند کا فائدہ ہو تو غیر نقدی چیز دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ زکوۃ کی غرض و غایت غریب کی مصلحت پر مبنی ہے.
لہذا مذکورہ بالا سوسائٹی مذکورہ بالا مقاصد کے لئے زکوۃ کے مال سے محتاج مسلمانوں کی امداد کر سکتی ہے، اور اگر زکوۃ لینے والوں کو زکوۃ کے کسی غیر نقدی چیز کی ہی ضرورت ہو اور سوسائٹی وہ چیز مہیا کر سکتی ہو تو ایسا کرنا بھی درست ہے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas