بیوی کا اپنے شوہر کو غسل دینا

Egypt's Dar Al-Ifta

بیوی کا اپنے شوہر کو غسل دینا

Question

بیوی کا اپنے شوہر کو غسل دینا 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی رسول اللہ و آلہ وصحبہ و من والاہ۔۔۔ وبعد: " غسل " عربی زبان میں کسی چیز کو پاک اور صاف کرنے کو کہتے ہیں اور " تغسیل " اعضا کو دھونے میں مبالغہ کرنے کو کہتے ہیں۔

شریعت میں  غسل کی نیت سے تمام جسم پر پانی بہانے کو کہتے ہیں۔

میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے۔ اگر کسی نے بھی غسل دے دیا تو باقی لوگوں سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا۔

امام دردیر فرماتے ہیں: اس پر نماز جنازہ پڑھنا کفن اور دفن کرنے کی طرح فرض کفایہ ہے۔([1])

امام بخاری نے حضرت ام عطیہ نسبیہ انصاریہ کی حدیث نقل کی ہے فرماتی ہیں: رسول اللہ کی ایک صاحبزادی کا وصال ہوا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا: " انہیں پانی اور بیری( کے پتوں) سے تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار جتنا تمہیں بہتر لگے غسل دو۔ اور آخر میں کافور یا یا کافور میں سے لگانا "

 

امام ابو داود ؒ  حصین بن حوح سے روایت کرتے ہیں: طلحہ بن برا بیمار ہوئے تو رسول خدا  ان کے پاس عیادت کیلئے تشریف لائے تو آپ نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ طلحہ کو موت ہی واقع ہونے والی ہے ۔ پس مجھے بلا لینا اور جلدی کرنا۔ کیونکہ مناسب نہیں ہے کہ مسلمان کی میت اس کے گھر والوں کے سامنے پڑی رہے "

اصل یہی ہے کہ عورت کو عورت ہی  غسل دے۔امام نووی فرماتے ہیں: اصل یہ ہے کہ مرد کو مرد ہی غسل دیں اور کو عورت دے اور عورت کا ہر حال میں عورت کو غسل دینا افضل ہے۔([2])

لیکن اس بات علماء کا اتفاق ہے کہ بیوی کیلئے اپنے شوہر کو غسل دینا جائزہے۔ بلکہ مالکیہ کے نزدیک دوسروں پر بیوی مقدم ہے۔ امام ابو داود، امام ابن حبان اور امام حاکم - رحمھم اللہ عنھم اجمعین ـ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے فرمایا: اگر مجھے میرے معاملے کا پہلے پتا چل جاتا جس کا بعد میں پتا چلا ہے تو نبی اکرم کو آپ کی بیویاں ہی غسل دیتیں۔

امام ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں عورت کو اپنے شوہر کو غسل دینے سے نہیں روکا جائے گا۔ چاہے اس نے اس سے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو۔

اس لیے کہ اس پر عدتِ وفات لازم ہے اگرچہ یہ مدخول بہا نہیں ہے۔ اور" بدائع " میں ہے کہ عوررت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ کیونکہ غسل کی اباحت نکاح سے مستفاد ہے۔ تو جب تک نکاح باقی ہے تو یہ اباحت بھی باقی رہے گی اور نکاح موت کے بعد عدت گزرنے تک باقی  رہتا ہے۔([3])

شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: غیر رجعیہ بیوی اپنے شوہر کوغسل دے سکتی ہے، کیونکہ ابھی تک زوجیت کے حقوق ختم نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ میراث میں اس کا حق ابھی باقی ہے۔اور نبی اکرم نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے فرمایا: " اگر آپ رضی اللہ تعالی عنھا مجھ سے پہلے وصال فرما گئیں تو میں آپ کو غسل دوں گا اور کفن پہناؤں گا " اس حدیث پاک کو امام ابن ماجہ نے روایت کیاہے۔

اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے فرمایا: اگر مجھے میرے معاملے کا پہلے پتا چل جاتا جس کا بعد میں پتا چلا ہے تو نبی اکرم کی بیویاں ہی آپ کو غسل دیتیں۔ ([4])

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ ابن منذر فرماتے ہیں، اس بات پر اہل علم کا کا اجماع ہے کہ عورت اپنے شوہر کی وفات کے بعد اس کو غسل دے سکتی ہے۔ اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا نے فرمایا: اگر ہمیں ہمارے معاملے کا پہلے پتا چل جاتا جس کا بعد میں پتا چلا ہے تو نبی اکرم کی بیویاں ہی آپ کو غسل دیتیں۔ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیوی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنھا کو وصیت کی تھی آپ کو غسل دیں۔ دریں اثنا آپ روزہ کی حالت میں تھیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے قسم کھائی کہ آپ روزہ توڑ دیں۔ جب آپ غسل دے کر فارغ ہوئیں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی قسم یاد آئی تو آپ نے فرمایا آج ان کی یہ قسم بھی پوری کر دیتی ہوں، اس کے بعد آپ نے پانی منگوایا اور پی لیا۔

ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اپنی بیوی ام عبد اللہ کو خود غسل دیا تھا۔ اور حضرت جابر بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی وصیت کی تھی کہ انہیں ان کی بیوی غسل دے۔ امام احمد فرماتے ہیں اس مسئلہ میں لوگوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ پھر فرماتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ زوجین میں سے دونوں ایک دوسرے کی پر شرمگاہ آسانی سے مطلع ہو سکتے ہیں کیونکہ دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق رہا ہے۔ اور غسل بھی ممکنہ حد تک احسن طریقے سے مکمل ہو گا۔ کیونکہ دونوں کے درمیان مودت اور رحمت کا رشتہ ہوتا ہے۔ ([5])

امام خرشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ اگر نکاح صحیح ہو تو زوجین کو مقدم کیا جائے گا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ میاں بیوی میں ہر ایک دوسرے کو غسل دینے میں باقی سب اولیاء پر مقدم ہیں۔ اگر اولیاء آپس میں اختلاف کریں تو فیصلہ انہیں کے حق میں ہوگا۔ کیونکہ اصل یہ ہے کہ جس کا حق ثابت ہو اسی کے حق میں فیصلہ کیا جائے۔ اگر ان کے درمیان نکاح صحیح ہو۔چاہے اس کے بعد کچھ ہوا یا نہیں۔([6])

امام نفراوی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صاحب رسالہ نے اس بات پر نص قائم کی ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کو غسل دینے کیلئے دوسرے گولوں سے مقدم ہیں۔([7])

مذکورہدلائلکیبناپرثابتہواکہاسباتپرعلماءکرامکااتفاقہےکہعورتکیلئےاپنےشوہرکوغسلدیناجائزہے۔

والله تعالى اعلم بالصواب۔

 


[1] شرح کبیر 1/212 ط دار الکتب العلمیۃ
[2] روضۃ الطالبین للنووی 2/105 ط۔ المکتب الاسلامی
[3] حاشیہ ابنِ عابدین 1/576 ط۔ احیاء التراث
[4] شرح منھج الطلاب 2/150 ط۔ دار الفکر
[5] المغنی لابن قدامہ 2/390 ط۔ مکتبۃ القاہرہ
[6] شرح خرشی علی مختصتر خلیل

[7] الفواکہ الدوانی شرح الرسالۃ 1/287 ط۔ دارلفکر 

Share this:

Related Fatwas