چھوٹی مسجد میں نماز جمعہ کا حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

چھوٹی مسجد میں نماز جمعہ کا حکم

Question

چھوٹی مسجد جہاں نمازِ جمعہ نہ پڑھی جاتی ہو اس میں نماز جمعہ ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی رسول اللہ و آلہ وصحبہ و من والاہ۔۔۔ وبعد: نماز جمعہ رسول اللہ کی مدینہ طیبہ میں تشریف آوری کے ابتدائی دنوں میں ہی فرض کی گئی ہے اس کی فرضیت اللہ تعالی کے اس فرمان سے ثابت ہے: " اے ایمان والو جب (تمہیں) بلایا جائے نماز کی طرف جمعہ کے دن تو دوڑ کر جاؤ اللہ تعالی کے ذکر کی طرف اور (فورا) چھوڑ دو خرید و فروخت یہ تمہارے لیے بہتر ہےاگر تم (حقیقت کو) جانتے ہو " ([1])

نماز جمعہ کیلئے مسجد شرط نہیں ہے بلکہ نماز جمعہ کھلے میدان اور عمارت میں بھی جائز ہے۔ جب اس کے صحیح ہونے کیلئے مسجد شرط نہیں ہے تو پھر چھوٹی مسجد اور کسی بھی نماز کی جگہ نماز ہو گی۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کچھ لوگ نمازِ جمعہ کیلئے مسجد کی شرط لگاتے ہیں صرف اس لیے کہ یہ نماز کبھی بھی مسجد کے علاوہ ادا نہیں کی گئی ہے اور امامِ اعظم ابو حنیفہ، امام شافعی اور اور دیگر علماء رحمہ اللہ اجمعین نے فرمایا کہ مسجد شرط نہیں ہے اور اگر یہ حدیث صحیح ہے کہ حضور نے ابن سعد اور اہل سیر کے درمیان  واقع  وادی میں نماز جمعہ ادا کی تھی تو قوی رائے کے مطابق  یہی جواز کاقول ہے۔ اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے تو بھی مسجد میں ہی ادا کی گئی نماز اس کیلئے مسجد کے شرط ہونے کی دلیل نہیں ہے۔([2])

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " ہادی "  نے نمازِ جمعہ کیلئے مسجد کو شرط قرار دیا ہے اس لیے کہ یہ صرف مسجد میں ہی ادا کی جاتی رہی ہے۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ اور امام شافعی اور امام مؤید باللہ اور دوسرے سب علماء رحمھم اللہ یہ کہتے ہیں کہ مسجد شرط نہیں ہے۔ اس ضمن میں وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کے شرط ہونے کی مفصل دلیل موجود نہیں ہے۔ اورآپ  " بحر " میں فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے کہ حضور نے ابن سعد اور اہل سیر کی وادی کے درمیان نماز جمعہ ادا کی تھی تو قولِ راجح یہی قول ہے۔ اور اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے تو پھر بھی مسجد میں کی گئی ادائیگی مسجد کے شرط ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ ([3])

امام نووی فرماتے ہیں: ہمارے ساتھیوں نے یہ کہا ہے کہ مسجد میں اسے ادا کرنا شرط نہیں ہے بلکہ اسے کھلے میدان میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ یہ میدان بستی کے اندر ہو یا شہر کی ایسی جگہ ہو جسے شہر میں شمار کیا جاتا ہو۔ اگر شہر سے باہر ادا کی تو بالاتفاق صحیح نہیں ہو گی۔ چاہے شہر کے قریب ہی ادا کی ہو یا دور۔ کسی کارنر میں ادا کی ہو یا میدان میں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا : جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اسی طرح تم نماز پڑھا کرو " اور آپ نے اس طرح یعنی شہر سے باہر نکل کر نمازِ جمعہ ادا نہیں کی۔ ([4])

 

حافظ زین الدین عبد الرحیم بن الحسین عراقی فرماتے ہیں: ہمارے مسلک میں یعنی مذہبِ شافعیہ میں نمازِ جمعہ مسجد کے ساتھ خاص نہیں ہے۔([5])

امام مرداوی حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نمازِ جمعہ ادا کرنا ایسی متفرق عمارتوں میں جائز ہے جن کا نام ایک ہو۔اور  صحرا  کے اس  حصے میں بھی جائز ہے جو عمارتوں سے ملا ہوا ہے۔ یہی ہمارا مطلقا مسلک  ہے۔ اکثر  فقھاء  کا اس پر اتفاق ہے اور اکثر نے اسے قطعیت قرار دیاہے۔([6])

لیکن موجودہ سوال سے ایک اور مسئلہ متعلق ہے وہ  یہ کہ جمہور علماء کے نزدیک بغیر ضرورت کے تعدد جمعہ  یعنی ایک شہر میں ایک سے زیادہ  جگہ جائز نہیں ہے۔ اور ضرورت  اپنی مقدار کے مطابق ہی جائز ہوتی ہے۔اور " امام عطا " نے ان علماء کی مخالفت کی ہے جیسے امام عبدالرزاق نے  ابن جریج سے تخریج کیا ہے ۔ آپ  کہتے ہیں کہ میں نے امام عطا سے کہا آپ کا کیا خیال ہے کہ اہل بصرہ بڑی مسجد میں نہ سمائیں تو کیا کریں تو کہنے لگے ہر قبیلے کی ایک مسجد ہو وہ اسی میں جمع ہوں اور یہ ان کی طرف سے کافی ہے تو ابن جریج نے کہا  کہ علماء نے اس بات کا انکار کیا ہےکہ وہ بڑی مسجد کے علاوہ کہیں اور جمع ہوں۔

ابن قدامہ  رحمہ اللہ فرماتے ہیںاگر حاجت نہ ہو تو ایک سے زیادہ نمازِ جمعہ جائز نہیں ہے۔ اگر دو کافی ہوں تو تیسری جائز نہیں ہو گی اس طرح ان سے زیادہ کا بھی یہی حکم ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس بات میں کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا ہے ۔ مگر عطا سے پوچھا گیا کہ  اگر اہل بصرہ کیلئے بڑی مسجد میں جگہ ناکافی ہو ؟  تو فرمایا ہر قبیلے کیلئے ایک مسجد ہو جس میں وہ جمع ہوں پھر یہ عمل ان کا ایک بڑی مسجد میں جمع ہونے کی بجائے کافی ہو جائےگا۔جمہور کا قول راجح  ہے کیونکہ نبی اکرم اور آپ کے خلفائے راشدین سے  ایسی کوئی حدیث منقول نہیں ہے کہ انہوں نے ایک سے زیادہ جگہ جمع ہو کر نمازِ جمعہ ادا کی ہوکیونکہ یہ ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اور بغیر دلیل کے کوئی حکم ثابت  کرنا جائز نہیں ہے۔([7])

مذکورہ دلائل کی بنا پر ثابت ہوا کہ چھوٹی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ جائز ہے ۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ اگر ضرورت نہ ہو تو ایسا  نہ کیا جائے تاکہ جمہور علمائے کرام رضوان اللہ  تعالی علیھم کے اختلاف سے بچا جا سکے۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب۔

 



[1] سورۃ الجمعۃ 9

[2] عون المعبود 3/271 ط۔ دار الکتب العلمیۃ

[3] نیل الاوطار  3/278 ط۔ دار الحدیث

[4] المجموع شرح التہذیب 4/105 ط۔ دار الفکر

[5] طرح التثریب فی شرح التقریب 3/190 ط۔ دار الفکر ا؛عربی

[6] الانصاف 2/378 ط۔دار احیاء التراث العربی  ہر خوف کا ڈٹ کر سامنا کرے پڑے گا

[7] المغنی 2/248 ط۔ مکتبۃ القاھرہ

 
Share this:

Related Fatwas