کسی عذر کی وجہ سے فرض نماز توڑ دینا...

Egypt's Dar Al-Ifta

کسی عذر کی وجہ سے فرض نماز توڑ دینا

Question

میں گھر میں تنہا فرض نماز ادا کر رہی تھی درآں کہ میرا چھوٹا بچہ کھیل رہا تھا اور اس نے بجلی کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا تو میں نے اس ڈر سے نماز توڑ دی کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ میرے اس فعل کا شرعی حکم کیاہے ؟ کیا میں نے گناہ کا کام کیا ؟ 

Answer

بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: فرضی نماز کو کسی شرعی عذر کے بغیر توڑنا حرام ہے۔ کیونکہ یہ عبادت کو ضائع کرنا ہے اور ایسا کرنے سے اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ہمیں منع فرمایاہے: '' اور نہ ضائع کرو اپنے عملوں کو ''( )
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کسی نے اول وقت میں فرض نماز شروع کر دی تو اس کیلئے بغیر کسی شرعی عذر کے نماز توڑنا حرام ہے اگرچہ ابھی کافی وقت پڑا ہے۔ یہی ہمارا مذہب ہے اور اس پر نص قائم ہے اور اسی کو ہمارے اصحاب نے قطعی رائے قرار دیا ہے۔۔۔۔۔ اور نماز توڑنے کے کی حرمت کی دلیل یہ فرمانِ الٰہی ہے : '' اور نہ ضائع کرو اپنے عملوں کو ''( ) یہ حکم اپنے عموم پر باقی رہے گا مگر یہ کہ دلیل کے ساتھ کوئی چیز اس حکم سے خارج ہو جائے۔ ( )
امام ابن قاسم حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بغیر کسی عذر کے فرض نماز سے نکلنا حرام ہے۔ اور امام مجد وغیرہ نے کہا ہے: ہمارے علم کے مطابق اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اور '' الفروع '' میں فرماتے ہیں: جس نے وسیع الوقت عبادت شروع کی جسیے رمضان شریف کے روزے کی قضا یا فرض نماز اس کے ابتدائی وقت میں شروع کر دی اسی طرح نذرِ مطلق اور کفارہ -اگر اس کی تاخیر جائز ہو- تو ان سب عبادتوں کو شروع کر کے بغیر کسی عذر کے توڑنا بالاتفاق حرام ہے۔ ( )
فرض نماز کو کسی عذرِ شرعی کی وجہ سے توڑنا جائز ہے۔ یہ عذر یا مباح ہو گا ، یا مستحب ہوگا یا پھر واجب ہو گا۔
فقہائے عظام نے مندرجہ ذیل چیزوں کو نماز توڑنے کے جواز کے اسباب میں شمار کیا ہے : سانپ وغیرہ کو مارنا، اپنے یا کسی دوسرے کے مال کے ضائع ہونے کا خوف جس کی قدر و قیمت ہو، مظلوم کی مدد کرنا، غافل یا سوئے ہوئے کو کسی واقعی لاحق ہونے والے خطرے سے متنبہ کرنا بشرطیکہ تسبیح سے اسے متنبہ نہ کیا جا سکتا ہو، ڈوبنے والے کو بچانا اور بچے کی جان یا اپنی جان کا خطرہ ہو، وغیرہ۔
امام حصکفی حنفی رحمہ اللہ ابن عابدی پر حاشیہ لگاتے ہوئے فرماتے ہیں: فرضی نماز کو سانپ وغیرہ کو مارنے کیلئے توڑنا جائزہے۔ یعنی عملِ کثیر سے اسے مار دے۔ کسی جانور کو بھگانے کیلئے بھی توڑنا جائز ہے ، اسی طرح اگر اگر بھیڑیے سے بکریوں کو خطرہ ہو، ہنڈیا کے ابلنے کی وجہ سے بھی جائز ہے، چاہے ہنڈیا کے اندر کھانا نمازی کا پک رہا ہو یا کسی اور کا ہو، اور ہر اس چیز کے ضائع ہونے کے خوف سے نماز توڑنا جائز ہے جس کی قیمت ایک درہم ہو۔ '' مجمع الروایات '' میں فرماتے ہیں : کیونکہ ایک درہم سے کم قیمت والی چیز حقیر چیزہوتی ہے اس کی وجہ سے نماز کو توڑنا جائز نہیں ہے۔ لیکن '' المحیط '' میں مذکور ہے کہ " دانق " یعنی ایک درہم کے چھٹے حصے کی وجہ سے کسی کو قید کرنا جائزہے تو نماز توڑنا بدرجہ اولی جائزہو گا اگر مال کسی دوسرے کا ہے لیکن اگر مال نمازی کا اپنا ہے تو نماز نہ توڑے۔ اور دونوں اقوال میں صحیح قول یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں نماز توڑنا جائزہے۔ '' مواہب الرحمٰن '' اور نور الایضاح '' وغیرہ میں آیا ہے کہ " اخبثین " یعنی پیشاب اور قضائے حاجت کی وجہ سے نماز توڑنا مستحب ہے۔ لیکن یہ اس بات کے خلاف ہے جو '' الخزائن '' اور '' شرح المنية '' میں بیان کی ہے۔ وہ یہ کہ اگر یہ نمازی کے دل کی توجہ نماز اور اس کے خشوع سے ہٹا دے اور اس کے باوجود اس نے نماز کو مکمل کیا تو مکروہ تحریمی کے ساتھ اسے ادا کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو گا۔ یہ جملہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نماز توڑنا واجب ہے مستحب نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔مظلوم کی دادرسی کیلئے نماز کو توڑنا فرض ہے چاہے وہ نمازی سے فریاد کر رہا ہو یا کسی انسان کو متعین کیے بغیر مدد کو پکار رہا ہو۔ اور نمازی اس کی مدد کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔ اسی طرح اگر غالب گمان کے مطابق نابینے کا کنوئیں میں گرنے کا خطرہ ہو توبھی جائز ہے۔ مگر والدین اور اجداد کی آواز پر نماز نہیں توڑے گا۔ سیاقِ کلام والدین کو آواز کا جواب دینے کے واجب ہونے کی نفی کرتا ہے ۔ پس مستحب اور جواز ہونا باقی ہے۔ میں کہتا ہوں لیکن فتحہ کا ظاہر جواز کی بھی نفی کرتا ہے۔ اور '' الامداد '' میں اسی بات کی تصریح کی ہے کہ اگر مدد یا اعانت مطلوب نہ ہو تو والدین کی آواز پر نماز نہیں توڑی جا سکتی ، کیونکہ نماز کا توڑنا صرف ضرورت کے وقت جائز ہے۔ اور امام طحادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حکم فرض نماز کا ہے لیکن نفلی نماز کی صورت میں اگر والدین نے معلوم ہونے کے باوجود کہ بیٹا نماز میں ہے، آواز دے دی ان کی آواز کا جواب نہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر انہیں معلوم نہیں تھا تو ان کی آواز جواب دے دے۔ ( )
امام زکریا انصاری فرماتے ہیں: نابینے کو متنہ کرنا واجب ہے، اگر اسے کلام یا نماز توڑ دینے والے فعل کے علاوہ متنبہ نہ کیا جا سکتا ہو تو بھی اسے متنبہ کرنا واجب ہے اور صحیح قول کے مطابق اس کی خاطر نماز توڑ دی جائے گی۔ ( )
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: اگر دو بچے آپس میں لڑ رہے ہوں اور یہ خوف ہو کہ ان میں سے کوئی ایک بچہ دوسرے کو کنوئیں میں گرا دے گا تو نمازی جا کر انہیں بچائے اور نماز دوبارہ ادا کرے۔ اور فرماتے ہیں اگر کسی نے کسی آدمی کو پکڑا ہوا ہو اور وہ مسجد میں داخل ہوا تو نماز کھڑی ہوگئی اور جب امام سجدے میں گیا ، تو وہ آدمی بھاگ گیا پس جس کے ذمہ یہ شخص تھا وہ بھی اس کو پکڑنے کیلئے نکل جائے۔ یعنی نماز دوبارہ پڑھ لے۔ اسی طرح اگر نمازی نے کسی جلتے ہوئے کو دیکھا اور وہ اس کی آگ کو بجھانا چاہتا ہے اور ڈوبتے ہوئے کو دیکھا اسے بچانا چاہتا ہے تو وہ بھی نماز سے نکل کر ان کی طرف جائے اور نماز دوبارہ پڑھ لے۔ اور اگر آگ یا سیلاب اس کی طرف آ رہا ہو اور ان سے بھاگ نکلا تو یہیں سے نماز دوبارہ شروع کرے گا اور حالت خوف والی نماز کی طرح اپنی نماز کو مکمل کرئے۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
اس مسئلہ کی اصل مصالح اور مفاسد کا موازنہ کرنے والے قاعدے پر مبنی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس کی زندگی کی حرمت ہے اس کو بچانا نماز ادا کرنے پر مقدم ہے، پھر یہ کہ دونوں اشیاء کو جمع کرنا اس کیلئے ممکن ہے یعنی اس کی جان بچائے پھر نماز ادا کر لے۔
امام عز بن عبد السلام رحمہ اللہ مصالح اور مفاسد کا موازنہ کرنے والے قاعدے کی مثالیں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : آٹھویں مثال : نمازوں کی ادائیگی پر معصوم جانوں کو غرق ہونے سے بچانا، کیونکہ ان کی جانوں کو بچانا اللہ تعالی کے ہاں نماز ادا کرنے سے افضل ہے۔ اور دونوں کام کرنا ممکن ہوجائے گا کہ پہلے غرق ہونے والوں کو بچائے پھر نماز قضا پڑھ لے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ اداءِ نماز کی جو مصلحت ضائع ہوئی ہے وہ مسلم جان کو بچانے کے برابر نہیں ہے۔ ( )
مذکورہ دلائل کی بنا پر اس سوال میں ہم کہیں گے کہ جو آپ نے اپنے بچے کو بچانے کی خاطر نماز توڑنے کا فعل کیا ہے وہ واجب تھا اور فرض نماز کی ادائیگی پر مقدم تھا۔ پھرآپ بعد میں اگر نماز کا وقت تھا تو نماز ادا کر لی اور اگر وقت نکل چکا تھا قضا کر لی تو اس فعل میں نہ کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کوئی حرج ہے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔ 

Share this:

Related Fatwas