ناخن پالش کے ساتھ وضو کا صحیح ہونا

Egypt's Dar Al-Ifta

ناخن پالش کے ساتھ وضو کا صحیح ہونا

Question

کیا ناخن پالش کے ساتھ وضو کرنا صحیح ہے ؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: عربی زبان میں وضوء " الوضاءۃ " سے مشتق ہے جس کے معانی حسن اور پاکیزگی کے ہیں۔ اگر وُضوء " ضمہ " کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے وضوء کرنا اور اگر وَضوء  " فتح " کے ساتھ ہو تو اس کامعنی ہے وہ پانی جس کے وضو کیا جاتا ہے۔

شریعت میں وضوء سے مراد مخصوص اعضاء کو پانی کے ساتھ  پاک کرنا ہے۔ اور یہ بالخصوص چار اعضاء ہیں۔ جب وضوء معین اعضا کے ساتھ خاص ہے تو پھر وضوء میں ہر ایسی چیز کو زائل کرنا شرط ہوگا جو پانی کو اعضاء تک پہنچنے میں رکاوٹ ہو۔ تاکہ وضوء کا مقصد حاصل ہوسکے ورنہ وضوء باطل ہوگا۔

امام شرنبلالی حنفی رحمہ اللہ وضوء کی شرائط کے بارے میں فرماتے ہیں: ہر اس چیز کو زائل کر دینا جس کا وجود پانی کے جسم تک پہنچنے میں رکاوٹ ہو۔ جیسے چربی اورموم۔ آ پ نے موم اور چربی کی ہی قید لگائی ہے کیونکہ تیل وغیرہ پانی کے جسم تک پہنچنے میں مانع نہیں ہوتا۔ ([1])

امام زرقانی رحمہ اللہ وضوء کی شرائط کے بارے میں فرماتے ہیں: اس کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اعضاء پر پانی کے مانع کوئی چیز موجود نہ ہو ۔ ([2])

امام بجیرمی شافعی رحمہ اللہ وضوء کی شرائط کے بارے میں فرماتے ہیں: کوئی رکاوٹ نہ پائی جائے۔ جیسے جما ہوا تیل وغیرہ ،  اور اگر جما ہوا نہ ہو تو وہ پانی کے جسم تک پہنچنے میں مانع نہیں ہوتا اگرچہ پانی اس پر ٹھہرتا نہیں ہے۔ ([3])

امام ہیتمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وضوء کی شرائط میں سے یہ ہے کہ جسم پر کوئی ایسی چیز نہ ہو جو پانی کو نقصان کی حد تک متغیر کر دے اور نہ ہی کوئی ایسی رکاوٹ موجود ہو جس کی وجہ سے پانی جسم تک نہ پہنچ سکتا ہو۔ ([4])

امام رحیبانی حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وضوء کی شرط یہ بھی ہے کہ ہر ایسی رکاوٹ زائل کر دی جائے جو پانی کے جلد تک پہنچنے مانع ہو۔ ([5])

ناخن پالش مائع ہوتا ہے جو ناخن پر جم جاتا ہے اور ایک سخت چھلکا سا بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پانی ناخن تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور ناخن چاہے ہاتھوں کے ہوں یا پاؤں کے، جسم کا حصہ ہیں جسے غسل اور وضوء میں دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : ''اے ایمان والو ! جب تم نماز کیلئے کھڑے ہونے لگو تو دھو لیا کرو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کوہنیوں تک اور مسح کر لیا کرو اپنے سروں کا اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک ۔'' ([6])

پس اللہ تعالی نے ہاتھوں اور پاؤں کو دھونے کا حکم دیا ہے اور یہ وضوء کے اعضاء میں سے ہیں۔ اور ناخن بھی ہاتھ اور پاؤں کا حصہ ہیں اللہ تعالی نے جن کے دھونے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ "امر" کبھی ضمنا  "امر بالجزء " بھی ہوتا ہے۔ اور جب کسی مانع نے اس جزء تک پانی نہیں پہنچنے دیا تو وضوء صحیح نہیں ہو گا۔ جس کی وجہ سے اس پر واجب ہے کہ اس مانع کو ختم کرے اور پھر اس حصے کو دھو لے دوبارہ سے باقی ہاتھ پاؤں دھونا شرط نہیں ہو گا۔ کیونکہ بہت سے اہل علم کے نزدیک '' موالاۃ '' یعنی اعضاءِ وضوء میں عدمِ تفریق سنت ہے فرض نہیں ہے۔ مگر مستحب ہے کہ اگر فاصلہ زیادہ ہو جائے تو دوبارہ مکمل وضوء کر لے۔ اور اسی صورت میں اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ مکمل وضوء کی بجائے صرف اسی حصے کو دھو لے جن پر ناخن پالش لگی ہوئی تھی۔

اگر نہیں دھوئے گا تو یہ حصہ خشک رہ جائے گا اور وضوء اور نماز دونوں ہی باطل ہوں گے اور ان دونوں کا اعادہ کرنا واجب ہو گا اگر اسی وضوء کے ساتھ نماز ادا کی ہے۔ اور اگر نہیں ادا کی تو پالش کو اتار کر اس جگہ کو دھونا اس پر واجب ہے۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پالش مرہم پٹی کے حکم میں ہے اگر پالش کے اتارنے میں مشقت ہو تو اس پر مسح جائز ہو گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پٹی اور ناخن پالش میں فرق ہے۔ پٹی پر صرف عذر کی وجہ سے مسح کرنا جائز ہے۔ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہ سے حدیث پاک روایت کی ہے کہ میرا ایک ہاتھ کا جوڑ زخمی ہوا تو نبی اکرم ﷺ سے میں نے اس بارے میں پوچھا آپ ﷺ نے مجھے پٹی پر مسح کرنے کا حکم فرمایا۔

پس پٹی پر مسح کرنے کی رخصت ہے اور رخصت صرف اپنی مقدار کے مطابق ہی ہوتی ہے۔

اس بنا پر ناخنوں کے اوپر سے وضوء کرنے سے وضوء صحیح نہیں ہو گا بلکہ اس پر پالش کو زائل کرنا واجب ہے۔ اور پھر دوبارہ وضوء کرنا بھی واجب ہے تاکہ ان علماء کے اختلاف سے بچ سکے جن کے نزدیک وضوء میں ترتیب واجب ہے۔ اور ان علماء کی تقلید کرنا بھی جائز ہے جن کے نزدیک وضوء میں ترتیب فرض نہیں ہے۔ تو پھر صرف اسی جگہ کو دھونا واجب ہو گا جس پالش لگی ہوئی تھی۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔

 

 


[1]مراقی الفلاح ص 34 ط۔ مصطفی حلبی
[2]مختصر الخلیل 1/54 ط۔ دار الفکر ۔
[3]البجیرمی علی الاقناع 1/115 ط۔ مصطفی حلبی
[4]تحفۃ المحتاج بشرح المنھاج 1/186 ط۔ احیاء التراث العربی۔
[5]مطالب اولی النھی 1/104 ط۔ المکتب الاسلامی۔
[6]سورۃ المائدۃ 6
Share this:

Related Fatwas