کتے کی نجاست کو سات مرتبہ مٹی سے صا...

Egypt's Dar Al-Ifta

کتے کی نجاست کو سات مرتبہ مٹی سے صاف کرنا

Question

کیا کتے کی نجاست کو پانی کی بجائے سات مرتبہ مٹی سے پاک کرنا کافی ہے یا پانی سے دھویا جائے اور اس میں مٹی بھی استعمال کی جائے؟ 

Answer

: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد: حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ اس بات پر متفق ہیں کہ کتے کا جوٹھا اور اس کا لعاب پلید ہے اسی طرح وہ برتن بھی جس میں کتے نے منہ ڈالا ہو۔ اس پر دلیل یہ کہ شیخین رحمھما اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' اگر تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس کی طہارت یہ ہے کہ وہ اسے سات مرتبہ دھوئے اور پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ '' اسی طرح آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' اگر تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو وہ اس برتن کو انڈیل دے اور پھراسے سات مرتبہ دھوئے ''
پس '' طھور '' کا کلمہ حدث یا نجاست ہونے کی صورت میں آتا ہے لیکن جب برتن پر کسی حدث کا وجود متصور نہیں ہے تو ثابت ہوا کہ کتے کا جوٹھا نجس ہے۔
اسی طرح برتن کو دھونےاور اس کے اندر جو کچھ ہے اسےانڈیلنے کا حکم دیا گیا ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہےکہ یہ عمل نجاست پر دلالت کرتا ہے وگرنہ انڈیلنے کے حکم سے مال کا ضائع کرانا لازم آئے گا۔ جوکہ ممنوع ہے۔
مالکیہ نے اس بات میں مخالفت کی ہے اور کہتے ہیں کہ کتے کا جوٹھا اور اس کا لعاب پاک ہے کیونکہ ان کی رائے یہ ہے کہ ہر زندہ چیز پاک ہے اگرچہ کتا یا خنزیر ہی کیوں نہ ہو اور اسی طرح اس کا لعاب، پسینہ ، آنکھ اور ناک کا پانی پاک ہیں۔ ( )
کتے کی نجاست سے برتن کو پاک کرنے کے بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے متفق علیہ حدیث پاک مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' اگر تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس کی طہارت یہ ہے کہ وہ اسے سات مرتبہ دھوئے اور پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ ''
امام ابو داود رحمہ اللہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : '' اگر برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھو لو اور ساتویں مرتبہ مٹی کے ساتھ ''
شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک کتے کی نجاست کو دور کرنے کیلئے سات بار پانی کے ساتھ دھونا واجب ہے اور ان میں سے ایک بار مٹی کے ساتھ اسے پاک کیا جائے گا۔ اور افضل یہ ہے کہ پہلی بار مٹی سے پاک کرے ۔ '' غسل '' میں جس معنی کا لحاظ کیا گیا ہے وہ صرف اس چیز کا پلید ہونا نہیں ہے کیونکہ اگر صرف نجاست ہی علت ہوتی تو تین بار دھونا کافی تھا یا اس میں مٹی استعمال کرنے کی ضرورت نہ ہوتی، لیکن اس میں جس معنی کا لحاظ کیا گیا ہے وہ '' تعبد '' ہے۔ ( )
شافعیہ کی رائے یہ ہے کہ اس میں ایک بار مٹی کو ہی استعمال کیا جائے گا اس کی جگہ کسی صابن یا صفائی کی جدید مصنوعات استعمال نہیں کی جائیں گی ظاہر قول کے مطابق۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ اگر صابن وغیرہ سے مقصد حاصل ہو جائے تو مٹی کی جگہ اس کا استعمال جائز ہے۔
مالکیہ کا خیال ہے کہ اگر کسی چیز کو کتے کا لعاب لگ جائے تو مستحب امر یہ ہے کہ اسے مٹی کے بغیردھو لیا جائے گا یعنی مٹی کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اور سات بار نجاست کی وجہ سے نہیں دھوئے گا کیونکہ ان کے نزدیک اس کا لعاب نجس نہیں ہے۔ بلکہ وہ '' تعبدا '' دھوئے گا۔ امام دسوقی اس کی علت بیان کرتے ہیں : کیونکہ مٹی کا استعمال تمام روایات سے ثابت نہیں ہے اور جس روایت سے ثابت ہے اس میں اضطراب ہے۔
حنفیہ نے مٹی کے بغیر تین بار دھونا جائز قرار دیا ہے اور اس عدد کی علت یہ بیان کی ہے کہ اگر کتے کا پیشاب لگ جائے تو تین بار دھونے سے پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے تو جس کو لعاب لگ جائے جو کہ پیشاب سے کم نجاست والا ہے، بدرجہ اولی تین بار دھونے سے پاک ہو جائے گا۔
اس سے واضح ہو گیا کہ مٹی یا اس کے قائم مقام کسی اور چیز کی شرط شافعیہ اور حنابلہ نے لگائی ہے لیکن احناف نے پاکیزگی کے حصول کیلئے پانی ہی کو متعین کیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے دھونے کے عدد میں اختلاف کیا ہے۔ صرف مٹی یا اس کے قائم مقام کسی چیز سے دھونا کافی نہیں ہوگا۔
لیکن جب ناپاک چیز مٹی ہی ہو جیسے اگر کتے نے زمین پر پیشاب کر دیا تو اس جگہ کو پاک کرنے کیلئے مٹی استعمال نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ یہ تحصیل حاصل ہے۔ اور پاکیزگی حاصل کرنے کیلئے مٹی پر اکتفا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دھونا حکمِ تعبدی ہے۔ اور تعبدی احکام میں صرف نصوص پر ہی انحصار کیا جاتا ہے ان میں قیاس کو دخل نہیں ہوتا۔
اس بنا پر اگر کتے کا لعاب یا پیشاب کسی چیز کو لگ جائے تو یہ چیز پانی کے ساتھ دھونے اور مٹی کا استعمال کرنے سے پاک ہو گی۔ صرف مٹی کا استعمال کافی نہی ہو گا اگرچہ سات مرتبہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں اگر ساتوں بار گدلے پانی سے دھویا تو جائز ہے اور یہ کافی ہو جائے گا۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب۔


 

Share this:

Related Fatwas