مومن ہونے کیلئے انسان سے کیا مطلوب ...

Egypt's Dar Al-Ifta

مومن ہونے کیلئے انسان سے کیا مطلوب ہے

Question

ایمان اور شرک کے مسئلہ میں لوگ اکثر بحث کرتے رہتے ہیں، کثیر علماء کرام سے مروی ہے کامل ایمان اقرار باللسان، تصدیق بالقلب اور "عمل بالارکان " کا نام ہے۔ تو انسان سے مومن ہونے کیئے کیا مطلوب ہے؟ کیا انسان اپنے دل کا مالک ہے کہ اپنی مرضی سے تصدیق یا تکذیب کرے، وہ تو صرف اپنی مرضی سے زبان کے ساتھ اقرار کر سکتا ہے کہ اللہ تعالی ایک ہے سیدنا محمد ﷺ اللہ تعالی کے رسول ہیں، جو کچھ قرآنِ مجید میں ہے وہ حق ہے، نماز، روزہ، حج اور زکاۃ۔۔۔۔۔ الآخر کے متعلق اللہ تعالی نے جو حکم فرمایا ہے اس کے مطاق انہیں ادا کرے۔اور عرض کرے کہ عقل اور دل پر اسے کنٹرول نہیں ہے کہ وہ انہیں ضروریاتِ دین کے اقرار پر مجبور کرسکے۔ ان باتوں کی وضاحت مطلوب ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد ! دل بھی انسان کے جسم کا حصہ ہے، جب انسان زبان سے ایمان کا اقرار کرتا ہے اور ارکانِ اسلام پر عمل کرتا ہے تو دل بھی اس کی تصدیق کر دیتا ہے؛ کیونکہ یہ بھی جسم کے اعضاء میں سے ایک عضو ہے، جو ارکانِ اسلام پر عمل کرتا ہے، لیکن انسان اپنے دل سے تصدیق یا تکذیب نہیں کروا سکتا۔ اور اس لئے بھی کہ دل اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں جیسے چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے، اور تمام جسم اللہ تعالی کی بارگاہ میں سرِ تسلیم خم رہتا ہے،اور یقینا دل طبیعی طور پر جسم اور زبان کی پیروی کرتا ہے۔ جب زبان اس کے دل کی مخالفت کرتی ہے تو یہ نفاق ہے، کیونکہ زبان کیلئے ضروری ہے کہ مافی قلب و عقل کا اظہار کرے؛ لیکن جب اس کا اظہار نہ کرے بلکہ دل کی پوشیدہ بات کا اظہار کرتی ہے تو جھوٹی گنہگار اور منافق ہو جاتی ہے۔

اور اللہ تعالی کا فرمان : ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾ ([1]) یعنی: خوب جان لو کہ اللہ ( کا حکم) حائل ہو جاتا ہے انسان اور اس کے دل کے (ارادوں) کے درمیان اور بیشک اسی کی طرف تم اٹھاۓ  جاؤ گے۔

سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اس کا معنی ہے: اللہ تعالی مومن اور کافر کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ اور امام سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کا معنی ہے: انسان نہ ایمان لا سکتا ہے اور نہ ہی انکار کر سکتا ہے مگر اس کے اذن کے ساتھ ۔ یعنی اس کی مشیئت کے کا ساتھ ۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ ﷺ کثرت کے ساتھ یہ دعا کیا کرتے تھے: '' يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ '' اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ ۔

امام ترمذی اور امام احمد رحمھما اللہ نے بھی اسے حدیث پاک کو روایت کیا ہے، ایک اور حدیث پاک ہے: میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ دعا کرتے ہوۓ سنا ہے : '' مَا مِنْ قَلْبٍ إِلَّا وَهُوَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، إِنْ شَاءَ أَنْ يُقِيمَهُ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَنْ يُزِيغَهُ أَزَاغَهُ '' ہر دل اللہ تعالی کے قبضۂ قدرت میں ہے جسے راہِ راست پر قائم رکھنا چاہتا ہے اسے قائم رکھتا ہے اور جسے ٹیڑھا کرنا چاہتا ہے اسے ٹیڑھا کر دیتا ہے۔ اس حدیث پاک کو امام احمد رحم اللہ نے روایت کیا ہے۔ اور آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے: '' يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ '' اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ ۔ '' وَالْمِيزَانُ بِيَدِ الرَّحْمَنِ يَخْفِضُهُ وَيَرْفَعُهُ '' اور میزان رحمن کے قبضۂ قدرت میں ہے وہی اسے جھکاتا ہے اور وہی اسے بلند کرتا ہے۔ پس پختہ عقیدے والا مومن جہاں بھی ہو اللہ تعالی اس کے دل کو نورِ ایمان سے پھر دیتا ہے۔ انسان پر مومن ہونے کیلئے جو واجب ہے وہ یہ کہ انسان للہ تعالی پر اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت، خیر و شر اور اچھی بری ہر قسم کی تقدیر پر ایمان لاۓ، زبان سے اس کا اقرار کرے، عقل، جسم اور دیگر اعضاء کے ساتھ عمل کرے اور پانچوں ارکانِ اسلام ادا کرے، پس جب انسان ایمان کے ساتھ خشوع و خضوع سے ان احکام کی بجا آوری کرے گا تو اللہ تعالی اسے مومن بنا دے گا اور نیک اعمال میں اس کی مدد فرماۓ گا، کیونکہ انسان کی زبان اسی بات کا اقرار کرتی ہے دل جس کی تصدیق کرتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى اعلم۔
 
 
 
 

 


[1][من سورة الأنفال: من الآية 24] 

Share this:

Related Fatwas