نبی اکرم ﷺ کی وجہ سے مدینہ منورہ کی زیارت کرنا
Question
علم کے بعض دعوے دار نبی اکرم ﷺ سے متعلق امور میں الجھن پیدا کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وجہ سے مدینہ منورہ کی زیارت کرنا شرک ہے؛ اور ایسا کرنے والا مشرک ہے؛ تو اس مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
Answer
زيارة المدينة مِن أجل النبي صلى الله عليه وآله وسلم
نبی اکرم ﷺ کی وجہ سے مدینہ منورہ کی زیارت کرنا
سوال
علم کے بعض دعوے دار نبی اکرم ﷺ سے متعلق امور میں الجھن پیدا کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وجہ سے مدینہ منورہ کی زیارت کرنا شرک ہے؛ اور ایسا کرنے والا مشرک ہے؛ تو اس مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد ! نبی اکرم ﷺ کی زیارت کیلئے سفر کرنا سب سے افضل عمل ہے اور اللہ رب العزت تک پہنچانے والے اعمال صالحہ میں سے سب سے اعلی ترین عمل ہے؛ اور اس کی مشروعیت پر علماء اسلام کا اجماع ہے۔ قاضی عیاض اور حافظ ابن حجر عسقلانی اور دیگر علماء عظام رحمھم اللہ نے اس مسئلہ پر علماء کا اجماع بیان کیا ہے، یہاں تک کہ علامہ ابنِ تیمیہ – جن کی طرف اس بارے میں تحریم کا قول منسوب ہے- نے بھی ''الفرقَ بين زيارة قبر المصطفى صلى الله عليه وآله وسلم وزيارة غيره من القبور '' کے سیاق میں اس مسئلہ کی مشروعیت پر اجماعِ امت نقل کیا ہے؛ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی مسجد کی طرف سفر کرنا جسے '' السَّفَر لزِيارةِ قَبرِهِ صلى الله عليه وآله وسلم '' کہا جاتا ہے، اس پر نسل درنسل مسلمانوں کا اجماع رہا ہے۔( ) امام ابنِ حجر عسقلانی علامہ ابنِ تیمیہ سے زیارتِ روضۂ اقدس کی تحریم کا دعوی نقل کرنے کے بعد ''فتح الباری'' میں فرماتے ہیں: ابنِ تیمیہ سے منقول بد ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے روضۂ اقدس کے دیدار کی غرض سے سفر کرنے کے جواز پر بہت سے علماء اسلام نے کتب تالیف کی ہیں۔ جیسے امام التقی السبکی رحمہ اللہ نے "شفاء السِّقام في زيارة خير الأنام عليه الصلاة والسلام"، امام ابن حجر الهيتمي رحمہ اللہ نے "الجوهر المنظم في زيارة القبر النبوي المكرم"، اور آپ کے شاگرد الفاكهي رحمہ اللہ نے "حسن الاستشارة في آداب الزيارة".
زیارت روضۂ رسول ﷺ کے جواز پر اللہ تعالی کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا﴾ ( ) یعنی: '' اگر یہ لوگ جب ظلم کر بیٹھے تھے اپنے آپ پر تو حاضر ہوتے آپ کے پاس اور مغفرت طلب کرتے اللہ تعالی سے نیز مغفرت طلب کرتا ان کے لیے رسول ( کریم ) بھی تو وہ ضرور پاتے اللہ تعالی کو بہت توبہ قبول فرمانے والا نہایت رحم فرمانے والا ''۔
یہ آیتِ کریمہ عام ہے جو ظاہری حیاتِ مبارکہ کوبھی شامل ہے اور حالت وصال کو بھی شامل ہے، اسی طرح سفر اور عدمِ سفر کو بھی شامل ہے، اور ان حالات میں کسی ایک کو بغیر دلیل کے خاص کردینا تخصیص بلا مخصص ہے جو کہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ اور عموم اس بات سے مستفاد ہے کہ فعل سیاقِ شرط میں واقع ہوا ہے۔ اور یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ جو فعل شرط کے سیاق میں واقع ہو وہ عام ہوتا ہے۔
کیونکہ فعل جب نکرہ کے معنی میں ہو تو نکرہ مصدر بھی اسے شامل ہوتا ہےاور جب نکرہ نفی یا شرط کے سیاق میں واقع ہو تو یہ وضعی طور پر عموم کیلئے ہوتا ہے۔
روضۂ رسول ﷺ کی زیارت اور صرف اسی قصد سے مدنہ منورہ جانے کے بارے میں بہت سی احادیث طیبہ وارد ہوئی ہیں؛ جن میں سے چند یہ ہیں: سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں: '' من جاءني زائرًا لا تَحمِلُه حاجةٌ إلا زِيارتي كان حَقًّا عَلَيَّ أَن أَكُونَ له شَفِيعًا يوم القيامة '' جو زیارت کی غرض سے میرے پاس آیا اور میری زیارت کے علاوہ کسی حاجت نے اسے آنے پر مجبور نہیں کیا تو مجھ پر قیامت کے دن اس کی شفاعت واجب ہوگئی۔ اسے امام طبرانی نے روایت کیا۔
ایک اور روایت میں ہے '' مَن زارَ قَبرِي بعد موتي كان كمَن زارَني في حياتي '' جس نے میرے وصال کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا کہ اس نے میری حیات ظاہری میں میری زیارت کی۔
ان احادیث کے بہت سے طرق ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں اور کثیر حفاظِ حدیث نے انہیں صحیح احدیث قرار دیا ہے؛ جیسے امام ابنِ خزیمہ، امام ابنِ سکن، امام قاضی عیاض، امام التقی السبکی، امام عراقی اور دیگر علماء کرام۔
اور نبی اکرم ﷺ کا جو فرمان ہے کہ : '' تین مساجد یعنی مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کے علاوہ کسی کی طرف بھی رختِ سفر نہ باندھو '' اس کا معنی ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی بھی مسجد کی طرف اس کی تعظیم اور تقرب کی غرض سے سفر نہ کرو۔
امام ابنِ حجر ہیتمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ وضاحت ہر ایک کیلئے ضروری ہے تاکہ اس میں سے استثناء استثناء متصل ہو سکے اور اس لئے بھی کہ نسکِ حج ادا کرنے کیلئے عرفہ کی طرف سفر کرنے کے وجوب پر علماء کرام کا اجماع ہے، اسی طرح جہاد کیلئے جانا اور دار کفر سے ہجرت کرنا جب اس کی شرط پائی جارہی ہو اور طلبِ علم کیلئے سفر کرنا کبھی سنت ہوتا ہے کبھی واجب ہوتا ہے، اسی طرح تجارت اور دنیاوی غرض سے سفر کرنا بالاجماع جائزہے تو اخروی ضروریات خصوصا جو سب سے مؤکد اور افضل ضرورت ہے یعنی نبی اکرم ﷺ کے روضۂ اقدس کی زیارت کی خاطر سفر کرنا بدرجہ اولی جائز ہو گا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی '' المسند '' میں اسی حکم کی صراحت کی ہے آپ نے سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا حدیث پاک روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: '' لَا يَنْبَغِي لِلْمَطِيِّ أَنْ تُشَدَّ رِحَالُهُ إِلَى مَسْجِدٍ يُبْتَغَى فِيهِ الصَّلَاةُ، غَيْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى، وَمَسْجِدِي هَذَا '' کسی بھی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ مسجد حرام، مسجد اقصی اور میری اس مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف نماز کی غرض سے اپنا رختِ سفر باندھے۔ اس حدیث کی اسناد حسن ہیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مرفوعا حدیث پاک مروی ہے؛ جس کے الفاظ یہ ہیں: '' أنا خاتمُ الأنبياء، ومسجدي خاتمُ مساجد الأنبياء، أحقُّ المساجد أن يُزارَ وتُشَدُّ إليه الرَّواحِلُ: المسجدُ الحرام ومسجدي، صلاةٌ في مسجدي أفضلُ مِن ألف صلاةٍ فيما سواه مِن المساجد إلا المسجدَ الحرام '' میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد خاتمِ مساجد الانبیاء ہے، جن مساجد کا حق ہے کہ ان کی زیارت جائے اور ان کی طرف رختِ سفر باندھا جائے وہ مسجد حرام ہے اور میری مسجد ہے، میری مسجد میں نماز پڑھنا مسجدِ حرام کے علاوہ کسی بھی مسجد میں ہزار نمازیں پڑھنے سے بھی افضل ہے۔
اس بناء پر ہم کہیں گے اللہ تعالی کے رسول اکرم ﷺ کے روضۂ انور کی زیارت کی سفر کرنا کتاب و سنت اور اجماعِ امت سے جائز امر ہے، اور ا س سے منع کرنے والا قول قولِ باطل ہے اور یہ قول قابلِ التفات نہیں ہے۔
والله سبحانه وتعالى اعلم۔