غریبوں کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر ا...

Egypt's Dar Al-Ifta

غریبوں کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر انسان کا اپنے مال میں تصرف کرنا

Question

کیا انسان اپنا مال خرچ کرنے میں آزاد ہے یعنی غریبوں کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر جیسے چاہے وہ خرچ کر سکتا ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! کسی کو مال دینے اور کسی سے روک لینے میں اللہ تعالی کی حکمتیں پوشیدہ ہیں، اللہ تعالی ہی اس امر پر بھی خبیر وبصیر ہے کہ کون دولتمند ہونے کا مستحق ہے اور کون فقر کا مستحق ہے۔ حدیث قدسی اللہ تعالی سے مروی ہے: '' وَإِنَّ مِنْ عِبَادِي الْمُؤْمِنِينَ مَنْ لَا يُصْلِحُ إِيمَانَهُ إِلَّا الْغِنَى وَلَوْ أَفْقَرْتُهُ لَأَفْسَدَهُ ذَلِكَ، وَإِنَّ مِنْ عِبَادِي الْمُؤْمِنِينَ لَمَنْ لَا يُصْلِحُ إِيمَانَهُ إِلَّا الْفَقْرُ، وَلَوْ بَسَطْتُ لَهُ لَأَفْسَدَهُ ذَلِكَ '' ۔ رواه ابن أبي الدنيا في "الأولياء" (ص: 9، ط. مؤسسة الكتب الثقافية) یعنی: میرے مومن بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے ایمان کو غنیٰ صحیح رکھتی ہے اور اگر میں ان کو فقر سے دوچار کر دوں تو یہ ان کے ایمان میں فساد پیدا کردے گا۔ اور میرے مومن بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے ایمان کیلئے فقر صحیح ہے اور اگر میں انہیں غنی کروں تو یہ اس کے ایمان میں فساد پیدا کردے گا.''
اللہ تعالی زندگی میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم فرماتے ہوۓ اور اسراف سے منع کرتے ہوۓ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا﴾ [الإسراء: 29] یعنی: نہ بنا لو اپنے ہاتھ کو بندھا ہوا اپنی گردن کے اردگرد اور نہ ہی اسے بالکل کشادہ کردو ورنہ تم بیٹھ جاؤ گے ملامت کیے ہوۓ درماندہ ۔''
اللہ تعالی نے مسلمان کو اپنے مال میں تصرف کرنے کا طریقہ بتایا ہے، اسی کی تاکید نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سنت میں آئی ہے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: إِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالشُّحِّ، أَمَرَهُمْ بِالْبُخْلِ فَبَخِلُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْقَطِيعَةِ فَقَطَعُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا '' رواه أبو داود من حديث عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما. یعنی: بخل سے بچو بیشک تم سے پہلے لوگ بخل کی وجہ سے ہلاک ہوۓ، ان کے نفس نے انہیں بخل کا حکم دیا تو وہ بخیل ہو گئے اور اس نے انہیں قطع رحمی کا حکم دیا انہوں نے قطع رحمی کی اور اس نے انہیں فجور کا حکم دیا وہ تو وہ فاجر بن گئے۔'' گزشتہ بیان سے واضح ہوتا ہے کہ انسان ہر اس کام میں اپنا مال خرچ کرنے میں آزاد ہے جسے وہ اپنی دنیا کی زندگی میں بہتر خیال کرتا ہے، بشرطیکہ بخل اور اسراف سے کام نہ لے، اور یہ بھی شرط ہے کہ فقراء اور مساکین کا حق نہ بھولے بلکہ اپنے مال کی زکاۃ وقتِ مقرر پر ادا کرۓ تاکہ اس کا مال پاک ہو جاۓ، یہی نہیں بلکہ صدقہ دنیے کا بہت اجر وثواب ہے؛ کیونکہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشادِ گرامی ہے: ﴿مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ﴾ [النحل: 96]، یعنی: جو تمہارے پاس ہے ختم ہوجاۓ گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔'' سیدنا ابو ہریرہ رضي الله عنه سے مرفوعًا مروی ہے: '' مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا أَنْفَقَ إِلَّا عِزًّا '' صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالی اس بندے کی عزت میں اضافہ کرتا ہے جو خرچ کرتا ہے۔''
اور خرچ کرنے میں سب سے پہلے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا واجب ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:: «خَيْرُكُم خَيْرُكُم لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُم لِأَهْلِي» رواه الترمذي. تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے اچھا ہے اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کیلئے اچھا ہوں۔''
مگر اپنے اہل وعیال کو دیتے ہوۓ فقراء اور مساکین کے جذبات مجروح نہ ہونے پائیں؛ کیونکہ بسا اوقات اپنے عیال کو زیادہ دینے سے محتاجوں کو تکلیف پہنچتی ہے، تاکہ غریبوں کے سینوں میں اس کیلئے کینہ اور حسد جنم نہ لے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: '' مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ العِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلاَنِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا '' متفقٌ عليه. کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں ۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے: اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے ۔ اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ ! بخیل کے مال کو تلف کر دے۔"
والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas