ساس بہو کے تعلق کی حدود

Egypt's Dar Al-Ifta

ساس بہو کے تعلق کی حدود

Question

 سائلہ بہو اور ساس کے درمیان تعلقق کی حدود جاننا چاہتی ہے؛ کیونکہ ان دونوں کے درمیان کافی مسائل پیدا ہوتے ہیں، تو کیا ساس کو ملنے کیلئے نہ جانا اور کبھی ان سے رابطہ نہ کرنا شرعا جائز ہے؟ یاد رہے کہ اس کا شوہر اپنی ماں سے ملنے کیلئے جاتا رہتا ہے۔

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سيدنا رسول اللہ و آلہ وصحبہ و من والاہ۔ وبعد: عورت کا اپنی ساس کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کا تعلق اپنے شوہر کے ساتھ بھلائی اور حسنِ معاشرت کے قبیل سے ہے مگر حسبِ طاقت جس سے اسے کوئی دینی یا دنیوی نقصان نہ پہنچ رہا ہو یا اس کے مقاصد خراب نہ ہوں : اور اس سے مراد اپنے گھر کی حفاظت ہے، ساس کے ملنے جانا اس پر واجب نہیں ہے بلکہ احسان اور فضل کے باب سے ہے نیک نیتی کے ساتھ اپنے مقصد تک پہنچ جاۓ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، پس اگر اس تعلق کی وجہ سے اسے کوئی نفسیاتی، جسمانی، دینی یا مادی کوئی نقصان ہوتا ہے تو برداشت نہ کرے؛ بلکہ یہ تعلق اس قدر محدود کر دے کہ اس سے نقصان نہ ہو، اس میں اس عورت پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور اپنے شوہر کو مزید جاری رکھنے سے اپنا عاجز ہونا سجھنانے کی کوشش کرۓ؛ تاکہ وہ اس کی بات سمجھ سکے اور اپنی بیوی کے بارے میں بدگمانی نہ رکھے اور اللہ تعالی سے مدد طلب کرے جس کا فرمان ہے: القائل: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ [البقرة: 153]. یعنی: اے ایمان والو مدد طلب کرو صبر اور نماز کے ذریعے سے، بیشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔
واللہ سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas