کرونا وائرس کی وجہ سے جمعہ اور جماع...

Egypt's Dar Al-Ifta

کرونا وائرس کی وجہ سے جمعہ اور جماعت کا ساقط ہونا

Question

دنیا کرونا وائرس کی جس وبائی صورتِ حال میں جی رہی ہے اور مصر میں اس کے داخل ہونے کے بعد، لوگوں کے باہمی میل جول کی وجہ سے اس کے انتشار کو روکنے پیشِ نظر حکومت نے سکولوں اور مساجد وغیرہ میں لوگوں کے اجتماعات کو کم کرکے جو احتیاطی اور اس سے بچاؤ کیلئے جو حفاظتی اقدامات کیے ہیں، کیا ان حالات میں مسجد میں جماعت کو ترک کرنا جائز ہے اور کیا یہی حکم نماز جمعہ کا بھی ہوگا؟ 

Answer

مختصر جواب: الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبة ومن والاه، وبعد: اسلامی شریعتِ مطہرہ نے لوگوں کی سلامتی کی خاطر اور بیماریوں سے بچنے کیلئے وباء کی حالت میں جمعہ اور جماعت کے سقوط کو جائز قرار دیا ہے۔ اور تمام شہریوں پر واجب ہے کہ حکومت نے مساجد، سکولوں اور عام محافل وغیرہ میں اجتماعات پر پابندی لگا کر اس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے جو احتیاطی اور اس سے بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات کئے ہیں ان پر عمل کریں، یہ اس لئے کہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ وائرس باہمی میل جول سے اور انفیکشن کے ذریعے سے مریض سے صحت مند انسان کی طرف بہت جلدی منتقل ہوتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اس وائرس میں مبتلا ہوجاتا ہے یا کسی شخص میں موجود ہوتا ہے لیکن اسے اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔
تفصیلی جواب:
عالمی ادارہ صحت ( WHO) نے بتایا ہے کہ کرونا انسانوں اور حیوانوں کو بیمار کرنے والے وائرسز کا مجموعہ ہے ان وائرسز میں سے ایک (COVID-19) ہے جو کہ لوگوں کے باہمی میل جول کے دوران انفیکشن کے ذریعے بہت جلدی پھیلتا ہے، چاہے وہ سانس کے ذریعے ہو اور کھانستے اور چھینکتے وقت ناک یا منہ سے نکلنے والا وائرس زدہ چھینٹے اندر جانے کی صورت میں ہو یا پھر مریضوں سے میل جول اور حفاظتی تدابیر اور صفائی ستھرائی نہ ہونے کی صورت میں ان جگہوں کو چھونے کی وجہ سے ہو جہاں یہ وائرس موجود ہوتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اس مرض میں مبتلا شخص سے ایک میٹر ( تین قدم) سے زاید فاصلے پر رہا جاۓ، کیونکہ انفیکشن مریضوں میں اضافے اور متوفیین کی تعداد بڑھانے میں اتنی زیادہ اثر انداز ہوئی ہے کہ اس وائرس کوعالمی وباء ڈکلیئر کر کے صحتِ عامہ کی ہنگامی صورتِ حال کا اعلان کرنا پڑا، اس تنظیم نے بتایا کہ یہ وائرس 14 دن جسم میں پرورش پاتا ہے اور ان ایام میں انسان اس کو دوسرے لوگوں تک پھیلانے کا ذریعہ بنا رہتا ہے، 22 طبی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ صفائی نہ کرنے کی صورت میں یہ وائرس 9 دن کسی بھی جگہ زندہ رہ سکتا ہے، بلکہ "the NEW ENGLAND" (NEJM) میں چھپنے والی چین کی ایک ریسرچ کے مطابق یہ بیماری لوگوں کے درمیان انفیکشن سے پھیلتی ہے چاہے ان پر اس وائرس کی علامات ظاہر ہوئی ہوں یا بالکل ظاہر نہ ہوئی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وزارت صحت کے مطابق انفیکشن کہتے ہیں بیماری کا سبب بننے والے جراثیم کا اپنی جگہ سے متاثر ہونے والے انسان تک پہنچ کر اس کے باریک ریشوں پر اثر انداز ہونا، اس پر کبھی بیماری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور کبھی ظاہر نہیں ہوتی۔
اور بہت سی وبائی امراض جیسے کوڑھ، خارش اور چیچک ان جیسی دیگر بیمایوں میں علماء نے اس کی یہی تعریف کی ہے، الإمام الطيبي "الكاشف عن حقائق السنن" (9/ 2979، ط. مكتبة نزار الباز): میں فرماتے ہیں: " العدوى " یعنی انفیکشن مرض کا کسی بھی مریض سے کسی دوسرے کی طرف منتقل کر جانے کو کہتے ہیں، اور جب کوئی کسی کو اپنی بیماری منتقل کر دے یا اپنے اخلاق دوسروں تک پہنچائے تو کہا جاتا ہے (أعدى فلانٌ فلانًا من خلقه أو من علة به(۔۔۔۔
اسلامی شریعتِ مطہرہ نے وبائی امراض سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے سب سے پہلے نظام سازی کی ہے تاکہ تکلیف اور حرج " مشقت " کو ختم کیا جا سکے اور یہ امراض ایسی وبائی صورت نہ اختیار کر جائیں جو لوگوں کیلئے نقصان اور معاشرے کیلئے خطرہ کا باعث بنیں، پس اسلام نے " قرنطینہ " کے قوانین وضع کیے اور امراض اور وبائیں پھیلانے والے حالات میں ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا واجب قرار دیا ہے؛ پس حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «فِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ» أخرجه البخاري في "صحيحه". یعنی: ” کوڑھی سے ایسے بھاگو شیر سے بھاگتے ہو ” اور ایک دوسری روایت میں ہے: «اتَّقُوا الْمَجْذُومَ كَمَا يُتَّقَى الْأَسَدُ» أخرجه ابن وهب في "جامعه"، وأبو نعيم في "الطب النبوي" وابن بشران في "أماليه" یعنی: ” کوڑھی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگا جاتا ہے ”.
حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے ہی مروی ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: «لا يُورِدَنَّ مُمرِضٌ على مُصِحٍّ» متفقٌ عليه. یعنی: ”مریض صحت مند کے پاس ہرگز نہ لے جایا جائے“۔
حضرت عمرو بن شرید نے اپنے والد گرامی رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا کہ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی تھا تو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے اسے پیغام بھجوایا : «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجعْ» أخرجه الإمام مسلم في "صحيحه". یعنی:”ہم نے تہماری بیعت قبول کر لی ہے پس تم لوٹ جاؤ“۔
امام زين الدين المناوي "فيض القدير" (1/ 138، ط. المكتبة التجارية الكبرى) میں فرماتے ہیں: اسے ملنے سے بچو اور اس کے قریب جانے سے اجتناب کرو اور اس ایسے بھاگو جیسے شیروں اور درندوں سے بھاگتے ہو۔
اس وقت کوڑھی سے میل جول کی ممانعت اس لیے آئی کہ بعض لوگوں کے نزدیک کوڑھ متعدی امراض میں سے تھی؛ جیسا کہ امام کماخی حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب "المهيأ في كشف أسرار الموطأ" (2/ 437، ط. دار الحديث) میں فرماتے ہیں: اس حکم میں اس جیسی اور متعدی بیماریاں بھی داخل ہوں گی اور ہر وہ بیماری جو تکلیف کا باعث بنے یا ایک انسان سے دوسرے میں پھیلے اس سے بچنے کیلئے یہی حکم اصل ہے۔
اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی تکلیف سے دوچار ہو اس سے جمعہ اور جماعت ساقط ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کا تندرست مسلمانوں سے میل ملاپ کرنا ان کو تکلیف پہنچانے اور ضرر پنچانے کا سبب بنتا ہے، اور جب شوہر کو کوڑھ لاحق ہو جانے کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کرنا جائز ہے تو کوڑھی اور تندرست مسلمانوں کے درمیان نمازوں میں تفریق کرنا بدرجہ اولی زیادہ مناسب ہے۔
امام المواق المالکی رحمہ اللہ "التاج والإكليل" (2/ 555، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتےہیں: سحنون نے کہا ہے: ان پر جمعہ واجب نہیں ہے اگرچہ یہ لوگ کثیر تعداد میں ہو، ہاں بغیر اذان کے باجماعت نمازِ ظہر ادا کرسکتے ہیں، لیکن وہ لوگوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا نہیں کریں گے۔
ابنِ یونس رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کیونکہ نمازِ جمعہ کیلئے ان کا آنا لوگوں کیلئے ضرر کا باعث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ علی آلہ وصحبہ وسلم نے لوگوں پر جمعہ کے روز غسل کرنا اس لئے لازم کر دیا تھا کہ وہ اپنے کام کرتے کرتے آتے تھے ان کے پسینوں کی بو کی وجہ سے ایک دوسرے کو تکلیف ہوتی تھی، تو ان مریضوں کوجمعہ سے روکنا اس سے اولی ہے کیونکہ وہاں لوگ جمع ہوتے ہیں، اور اس لئے بھی کہ اور جب شوہر کو کوڑھ لاحق ہو جانے کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کرنا جائز ہے تو اس کے دوسرے مسلمانوں کے درمیان نمازِ جمعہ میں تفریق کرنا بدرجہ اولی جائز ہے، پس سحنون کا قول بہت واضح ہے۔
الإمام الرعيني الحطاب المالكي في "مواهب الجليل" (2/ 184، ط. ار الفكر)میں فرماتے ہیں: اگر کوئی مسجد میں اپنے پڑوسی سے تکلیف محسوس کر رہا ہو اس طرح کہ وہ بیوقوف اور بد کلام ہویا اس سے بد بو آ رہی ہو یا کوڑھ وغیرہ جیسی موذی مرض کا مریض ہو اور اس جیسی ہر وہ چیز جس کے کسی لاحق ہونے سے ساتھ والوں کو تکلیف پہنچ رہی ہو اور وہ لوگ اس شخص کو مسجد سے نکالنا چاہیں تو اسے نکالنا اور مسجد سے دور رکھنا ان کیلئے جائز ہے، ایسا کرنا تب تک جائز ہے جب تک یہ علت اس شخص میں موجود ہے اور جب یہ علت عافیت، توبہ یا کسی اور وجہ سے زائل ہو جاۓ تو وہ دوبارہ مسجد میں آ سکتا ہے۔ اور میں نے اپنے شيخ أبو عمر أحمد بن عبد الملك بن هشام رحمه الله کو ایک ایک شخص کے بارے میں فتوی دیتے ہوۓ دیکھا ہے جس کے بارے میں نمازیوں نے شکایت کی اور کہا کہ یہ شخص مسجد میں انہیں اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے تکلیف دیتا ہے؛ پس آپ نے فتوی دیا کہ اسے مسجد سے نکال دیا جاۓ اور دور رکھا جاۓ اور یہ شخص ان کے ساتھ نماز میں شامل نہ ہو۔
امام ابن حجر الهيتمي "المنهاج القويم" (ص: 150، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: اور اسی طرح کوڑھی اور ابرص ہے، علماء کرام نے فرمایا ہے: ان دونوں کو مسجد سے، باجماعت نماز سے اور لوگوں میں میل جول سے روکا جاۓ گا۔
امام الحجاوي المقدسي الحنبلي "الإقناع" (1/ 176، ط. دار المعرفة) میں فرماتے ہیں: مراد یہ ہے کہ جماعت میں آنے سے روکا جاۓ گا حتی اگر مسجد سے باہر ہے یا نماز کے علاوہ ہی لوگ جمع ہیں۔۔ اور اسی طرح جسے برص یا اذیت ناک کوڑھ کا مرض لاحق ہو۔
" قرنطینہ " اور گورنمنٹ کی طرف سے اجتماعات پر لگائی گئی پابندی کا سبب وبائی مرض اور اس کے پھیلنے کا خوف ہے، یہ ایک ایسا امر ہے جس کا شریعتِ مطہرہ نے اعتبار کیا ہے؛ اور شریعتِ مطہرہ نے خوف یا مرض یا جو عذر ان کے معنی میں ہو کی صورت میں مسلمانوں سے جماعت کو ساقط کر دیا ہے:
پس حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِي فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنَ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ تِلْكَ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّاهَا» یعنی: جس نے مؤذن کو سنا اور اس کی اتباع کرنے میں اسے کوئی عذر مانع نہیں تھا تو اس نے جو (اکیلے) نماز پڑھی ہے اس کی طرف سے قبول نہیں کی جاۓ گی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا اس کا عذر کیا ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ» یعنی ڈر اور بیماری۔ أخرجه أبو داود والدارقطني في "سننهما"، والحاكم في "المستدرك"، والبيهقي في "السنن الصغير"، و"السنن الكبرى"، و"معرفة السنن والآثار" امام البيهقي رحمہ اللہ نے فرمایا: جو عذر ان دونوں کے معنی میں ہوں ان کا بھی یہی حکم ہو گا ۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے سامنے جمعہ کے دن یہ بات ذکر کی گئی کہ بدری صحابی سعید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالی عنھما بیمار ہیں، تو آپ ان کی طرف سوار ہو کر چل دیے اور نماز جمعہ چھوڑ دی، حالانکہ سورج بلند ہو چکا تھا اور جمع کا وقت قریب تھا۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں روایت کیا ہے۔
امام ابن عبد البر المالكي "التمهيد" (16/ 244، ط. أوقاف المغرب) میں فرماتے ہیں: حدیث مبارکہ میں «مِن غَيرِ عُذْرٍ» کی جہاں تک بات ہے تو اس عذر میں بڑی وسعت ہے؛ اس کا اجمالی مطلب یہ ہے کہ ہر وہ مانع جو اس کے اور نماز جمعہ کے درمیان حائل ہو جو تکلیف دہ ہو اور اس کے نقصان کا اندیشہ ہو، یا ایسا مانع ہے جس سے وہ فرض باطل ہو جاۓ جس کا بدل نہیں ہوتا؛ ان اعذار میں سے ظالم حکمران، مسلسل تیز بارش اور رکاوٹ بننے والی بیماری وغیرہ ہیں۔
بعض فقہاء کرام نے بیان کیا ہے کہ جن کی نمازِ جمعہ یا جماعت کسی عذر کی وجہ سے فوت ہو گئی ان کو اس کے اجر سے محروم نہیں کیا جاۓ گا بلکہ انہیں اس کا اجر ملے گا۔
امام بدر الدين العيني الحنفي "عمدة القاري" (6/ 196، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرماتے ہیں: اور یہی حکم ہے اگر اس کے ہاں کوئی ایسا مریض ہو جس کے فوت ہو جانے کا خوف ہو، پس سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما نے ابنِ سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنھما کی عیادت تو آپ کے سامنے اس کی شکایت ذکر کی گئی تو آپ انہیں عقیق کی طرف لے آۓ اور جمعہ چھوڑ دیا۔ امام عطاء اور امام اوزاعی رحمھما اللہ کا یہی مذہب ہے۔
امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: جب بیٹے کو باپ کے فوت ہو جانے کا خوف ہو۔ امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب آپ کے والد پر چیخ وپکار کی جارہی ہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو جمعہ چھوڑ کر باپ کی طرف چلے جاؤ۔ اور امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جسے باپ کے فوت ہو جانے کا خوف ہو اس کیلئے بھی جمعہ چھوڑنا جائز ہے۔
امام مالک رضی اللہ عنہ ” الواضحۃ “ میں فرماتے ہیں: مریض اور تندرست شیخ فانی پر جمعہ فرض نہیں ہے۔ اور امام ابو مجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب کسی کو پیٹ میں شکایت ہو تو جمعہ کیلئے نہ آۓ۔
امام ابن رشد المالكي "البيان والتحصيل" (1/ 502، ط. دار الغرب الإسلامي) میں فرماتے ہیں: مریضوں اور قیدیوں کے بارے میں مشہور قول یہ ہے کہ یہ لوگ باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں؛ کیونکہ یہ ترکِ جمعہ پر مغلوب ہیں۔۔ امام ابنِ قاسم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ (باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد) وہ اعادہ نہیں کریں گے، یہی بات اصبغ نے بغیر عذرکے جمعہ چھوڑنے والوں کے بارے میں فرمائی ہے، اور یہی بات اظہر ہے، کیونکہ ایک قول کے مطابق یہ لوگ باجماعت نماز ادا کرسکتے ہیں اس لئے جب وہ جمعہ چھوڑنے میں معذور ہیں تو جماعت کے ثواب سے محروم نہ ہوں۔
امام تقي الدين الحصني الشافعي "كفاية الأخيار" (ص: 142، ط. دار الخير) میں فرماتے ہیں: پس مریض پر اور جو اس کے معنی میں ہو جیسے بھوکا، پیاسا، ننگا اور ظلم سے خائف پر جمعہ واجب نہیں ہے۔۔ مریض پر جمعہ واجب نہ ہونے کی دلیل سابقہ حدیث مبارک ہے، اور باقیوں کی دلیل اس پر قیاس ہے، اور مریض کے معنی میں یہ لوگ ہیں: جسے اسہال لگے ہوں اور اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکتا اور مسجد میں گندگی کرنے کا خوف ہو، تو اس صورت میں اس کا مسجد میں داخل ہونا حرام ہے؛ یہ بات امام رافعی رحمہ اللہ نے ” کتاب الشھادات “ میں صراحت سے بیان کی ہے اور اس سے جمعہ ساقط ہونے کو امام المتولی رحمہ اللہ نے صراحت سے بیان کیا ہے۔
امام المرداوي الحنبلي "الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف" (2/ 300، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرماتے ہیں: مریض ترکِ جمعہ اور ترکِ جماعت میں بلا اختلاف معذور ہے اور مرض کا لاحق ہو جانے کا خوف بھی ترکِ جمعہ اور ترکِ جماعت میں عذر ہو گا۔
اس بناء پر ہم مذکورہ سوال میں کہیں گے: وبائی حالات میں شریعتِ مطہرہ نے لوگوں کی سلامتی کی رعایت کرتے ہوۓ اور انہیں بیماریوں سے بچانے کی خاطر جمعہ اور جماعت کے سقوط کو جائز قرار دیا ہے۔
اور تمام شہریوں پر واجب ہے کہ حکومت نے مساجد، سکولوں اور عام محافل وغیرہ میں اجتماعات پر پابیندی لگا کر اس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے جو احتیاطی اور اس سے بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات کئے ہیں ان پر عمل کریں، یہ اس لئے کہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ وائرس باہمی میل جول سے اور انفیکشن کے ذریعے سے مریض سے صحت مند انسان کی طرف بہت جلدی پھیلتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اس وائرس میں مبتلا ہوجاتا یا اس شخص پر یہ موجود ہوتا ہے لیکن اسے اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas