بیوی کا صدقہ فطر کس پر واجب ہوگا
Question
میں ایک شادی شدہ عورت ہوں میرا شوہر الحمد للہ صاحبِ حیثیت ہے، کیا میں اپنا صدقہ فطر اپنے مال سے ادا کروں یا جو شوہر میری طرف سے دے رہا ہے وہ کافی ہے؛ یاد رہے کہ میرے پاس بھی مال موجود ہے۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! عورت کا صدقہ فطر اسی شخص پر واجب ہو گا جس پر اس کا نفقہ واجب ہے؛ جیسے باپ، شوہر اور بیٹا۔ اگر یہ لوگ تنگدست ہوں تو عورت پر اپنے مال سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہو گا۔ بشرطیکہ اس کے پاس اس دن کے خرچے کے علاوہ صدقہ فطر ادا کرنے کیلئے مال موجود ہو۔
صدقہ فطر کے وجوب کی دلیل: سیدنا اابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: فَرَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ؛ عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ" رواه البخاري. یعنی: رسول اللہ ﷺ نے ہر غلام، آزاد، مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو (کے حساب سے) زکاۃِ فطر واجب کی ہے۔''
امام مالک رحمہ اللہ تعالی "الموطا'' میں فرماتے ہیں: صدقہ فطر مرد واجب ہونے کے بارے میں سب سے احسن قول میں نے یہ سنا ہے کہ مرد ہر اس فرد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرۓ گا جس کے نفقے کا وہ ضامن ہے، اور اس پر خرچ کرنا اس کے کیلئے لازم ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی "روضة الطالبين وعمدة المفتين" میں فرماتے ہیں۔ صدقہ فطر انسان کبھی اپنی طرف سے ادا کرتا ہے اور کبھی دوسروں کی طرف سے ادا کرتا ہے، دوسروں کی طرف سے ادا کرے کی چار جہات ہیں: مِلک، ںکاح اور قرابت داری۔ اور ان میں سے ہر ایک جہت صدقہ فطر کے وجوب کا تقاضہ کرتی ہے، ان میں سے کسی بھی جہت کا جس سخص پر نفقہ واجب ہوگا اس پر اس کا صدقہ فطر ادا کرنا بھی لازم ہوگا۔ یہ متفق علیہ قول ہے۔
اس بناء پر: سائلہ کا صدقہ فطر ادا کرنا شوہر پر ہی واجب ہو گا، جب تک شوہر اس کی طرف سے ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور شوہر کا ادا کرنا ہی کافی ہو گا اگرچہ بھی عورت مال دار ہو۔
والله سبحانه و تعالى أعلم.