صلہ رحمی کرنا اور والدین کی نارضگی ...

Egypt's Dar Al-Ifta

صلہ رحمی کرنا اور والدین کی نارضگی سے بچنا

Question

میں سٹودینٹ ہوں اورمیں اپنے کنبے میں خاندانی اختلاف کے مسئلے سے دوچار ہوں ، اور اس مسئلے میں نے بہت سی تکلیف کا سامنا کیا ہے کیونکہ اس نے نہ صرف مجھے نفسیاتی طور پر متاثر کیا ہے بلکہ یہ میرے ہر کام پر اثرانداز ہوا ہے اور اب تو میں اپنے خاندان والوں سے قطع رحمی کرنے لگ گئی ہوں یہ لوگ میرے چچے اور چچا زاد ہیں جن میں سے کچھ تو میری عمر کے ہیں، ہم ایک ہی گلی میں رہتے ہیں ہمارے گھر قریب قریب ہیں، مگر جب میں گلی سے گزرتی ہوں تو کسی کو سلام کرتی ہوں اور نہ ہی کسی کو عید مبارک کہتی ہوں، باودجود اس کے کہ سلام کرنے کو میرا دل بھی کرتا ہے مگر اندر سے کوئی چیز مجھے ایسا کرنے سے روکتی ہے، تو میں جاننا چاہتی ہوں کہ کیا کروں؟ 

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد: انسان کو چاہیے کہ دو چیزوں میں فرق کرے ایک یہ کہ والدین کے ساتھ حسن معاشرت اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور دوسرا یہ کہ ایسے کاموں میں ان کی تقلید کرنا جو اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بننے ہیں، اسی طرف اللہ تعالی نے اشارہ فرمایا ہے: "اگر وہ تجھے مجبور کریں اس پر تو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراۓ جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کا کہنا نہ مانو اور ان کے ساتھ دنیا میں بھلائی کے ساتھ پیش آؤ اور پیروی کرو اس کے راستے کی جس نے میری طرف رجوع کیا" لقمان: 15۔
شریعتِ مطہرہ نے صلہ رحمی کی ترغیب دی ہے؛ پس نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"جسے پسند ہو کہ اس کے رزق میں فروانی ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے" رواه مسلم، بچوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آباء اجداد کی غلطیاں نہ دہرائیں، پس آپ صلہ رحمی کرتی رہیں اگرچہ سلام کرنے یا سلام کا جواب دیے سے ہی ہو، لیکن یہ بھی کوشش کریں ایسے طریقے سے ہو کہ آپ کے والدین بھی آپ سے ناراض نہ ہوں، سیدھے راستے پر رہیں اور میانہ روی اختیار کریں اور آپ کی مشعل راہ اللہ تعالى کا یہ فرماں عالیشان ہونا چاہیے: ﴿فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (پس ڈرتے رہو اللہ تعالی سے جتنی تم استطاعت رکھتے ہو) التغابن: 16۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas