اللہ تعالی کے دین کو بااختیار بنانا...

Egypt's Dar Al-Ifta

اللہ تعالی کے دین کو بااختیار بنانا

Question

دہشت گرد اور انتہا پسند گروہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ لوگ اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے دین کو لوگوں میں بااختیار بنانے اور معاشروں کو گمراہی سے نکال کر نور کی طرف لانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں ، تو اس میں حقیقت کیا ہے؟

Answer

کتاب و سنت میں  "تمكين"(اختیار دینے/ قدرت دینے)کا مفہوم قرآن کریم میں ایک سے زیادہ جگہوں پر استعمال ہوا ہے،جیسےاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے بھی کتنی امتیں ہلاک کر دیں ہم نے انہیں زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا"۔ (سورۃ الانعام 6)۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں دنیا میں اقتدار دے دیں تو نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیک کام کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں اور ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے " (الحج: 41) ۔ اور اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے: "اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی، اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا" (سورۃِ النور 55)

نصوص کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ  اللہ تعالی  نے تمکین کا لفظ مومن کے حق میں اور کافر کے حق میں اور پہلی امتوں کے حق میں بھی استعمال کیا ہے، اور یہ کہ ان تمام آیات میں فعل اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے، کیونکہ اس نے تمکین کو اپنی طرف سے ایک ایساتصرف بنایا ہے جسے اللہ تعالیٰ بناتا اور پیدا کرتا ہے، اسے کوئی ایسا حکم تکلیفی حکم نہیں بنایا جس کے اسباب حاصل کرنا اور اس تک پہنچنے کی کوشش کرنا انسان پر لازم ہو  ۔

تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ علمی منہج کا فقدان بعض اوقات تصورِ تمکین کی تفسیر ایسے اقدامات کی صورت میں کرنے کا سبب بنتا ہے جو معاشروں کی تکفیر اور اسلام پر اجارہ داری کی بنیاد پر انہیں اقتدار تک رسائی دیتے ہیں اور اس دعوے کی بنیاد پر اقتدار تک رسائی فراہم کرتے ہیں کہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے کسی کو با اختیار بنانے پر  کام کرنا ضروری ہے۔

Share this:

Related Fatwas