نصف شعبان کی رات کو عبادت کرنا
Question
نصف شعبان کی رات کو عبادت کی خاطر مسجد میں اجتماع کرنے کا کیا حکم ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سيدنا رسول اللہ وعلى آله وصحبه و من والاه۔ وبعد: نصف شعبان کی رات برکت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کی ترغیب بہت سے احادیث طیبہ میں آئی ہے، ان میں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی ہے:«إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا؛ فَإِنَّ اللهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ، أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ، أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ، أَلَا كَذَا، أَلَا كَذَا، حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ» رواه ابن ماجه من حديث علي رضي الله عنه، یعنی: جب نصف شعبان کی رات آۓ تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو؛ کیونکہ اس رات اللہ تعالی آسمانِ دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے: ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ اسے میں بخش دوں؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ اسے رزق عطا کروں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ اسے کہ عافیت دے دوں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا۔۔؟ حتی کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔
اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: «مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِيَ الخَمْسَ وَجَبَتْ لَهُ الجَنَّةُ..» وذكر منها: «لَيْلَة النِّصْفِ مِنْ شَعْبَان» رواه الأصبهاني في "الترغيب والترهيب" یعنی: جو پانچ راتیں عبادت کی غرض سے جاگتا رہا اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اور ان میں سے ایک نصف شعبان کی رات ہے۔ اسے امام اصبہانی رحمہ اللہ نے معاذ بن جبل رضي الله عنه کی حدیث سے روایت کیا ہے۔
اس رات میں عبادت کی خاطر جاگنا بہت سے اسلاف سے ثابت ہے، اور جمہور فقہاءِ اسلام کا بھی یہی قول ہے، متقدمین اور متاخرین مسلمانوں کا اسی پر عمل ہے؛ امام شافی رضي الله عنه اپنی کتاب "الأم" (1/ 264): میں فرماتے ہیں: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعا قبول ہوتی ہے:۔۔۔۔ اور ان راتوں میں نصف شعبان کی رات کو بھی ذکر کیا۔
امام ابنِ نجیم رحمہ اللہ "البحر الرائق" (2/ 56) میں فرماتے ہیں: رمضان کی دس راتوں کو، دونوں عیدوں کی راتوں کو ذوالحج کی پہلی دس راتوں کو، اور نصف شعبان کی رات کو عبادت کی خاطر جاگنا مستحب اعمال میں سے ہے، اور جاگنے سے مراد قیام کرنا ہے۔
شیخ ابنِ تیمہ نے "الفتاوى الكبرى" (5/ 344) میں کہا ہے: جہاں تک بات ہے نصف شعبان کی رات کی، تو اس میں فضیلت ہے، کچھ اسلاف اس میں نماز پڑھا کرتے تھے۔
اس مبارک رات میں عبادت کرنے کا حکم مطلق آیا ہے اور مطلق کی دلالت زمان ومکان، احوال اور اشخاص کے عموم پر ہوتی ہے؛ جب کوئی امرِ شرعی متعدد صورتوں کا احتمال رکھتا ہو تو وہ ان سب صورتوں میں جائز ہوتا ہے، اور اسے دلیل کے بغیر کسی ایک صورت کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں ہوتا، ورنہ جس کام میں اللہ تعالی وسعت رکھی ہے اس میں تنگی کرنا لازم آۓ گا؛ لہٰذا اس رات میں اکیلے اور جماعات کی صورت میں، سراً اور جہراً، مسجد میں اور مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ میں عبادت کرنا جائز ہے- جہاں نمازیوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو-، بلکہ اس کے لئے اجتماع کرنا اولی ہے اور ایسا کرنے میں قبولیت کی زیادہ امید ہے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی حدیثِ صحیح ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّ للهِ مَلاَئِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ» قَالَ: «فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا» رواه البخاري من حديث أبي هريرة رضي الله عنه. یعنی: اللہ تعالی کے کچھ فرشتے ہیں جو راستوں پر پھرتے رہتے ہیں اوراہل ذکر کو ڈھنڈتے رہتے ہیں، جب انہیں کوئی ایسی قوم ملتی ہے جو اللہ تعالی کا ذکر کر رہی ہو تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں: اپنے مطلوب کی طرف جلدی آؤ، آپ ﷺ نے فرمایا: پھر وہ فرشتے اپنے پروں سے آسمانِ دنیا تک ان لوگوں پر امڈتے رہتے ہیں۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.