یومِ شک اور اس دن روزہ رکھنے کی مما...

Egypt's Dar Al-Ifta

یومِ شک اور اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت میں حکمت

Question

یوم شک کیا ہے اور اسکا روزہ رکھنا کیوں حرام ہے؟

Answer

فضيلة الأستاذ الدكتور علي جمعة محمد سابق مفتي الديار المصرية العربية

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبة ومن والاه، وبعد: اس مسئلے میں تین احادیث مبارکہ ہیں:

اول :

عن صِلَةَ بْنِ زُفَرَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي الله عنه، فَأُتِيَ بِشَاةٍ مَصْلِيَّةٍ فَقَالَ: كُلُوا، فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ عَمَّارٌ: "مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيهِ النَّاسُ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صلى الله عليه وآله وسلم یعنی: حضرت صلہ بن زفر رضی اللّہ عنہ فرماتے ہیں :" ہم عمار بن یاسر رضی اللّہ عنہ کے پاس موجود تھے، تو ان کے پاس ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو آپ نے فرمایا : اسے کھائیں، تو ایک آدمی پیچھے ہٹ گیا اور کہا کہ میں روزے سے ہوں، پس حضرت عمار رضی اللّہ عنہ نے فرمایا : جس نے اس دن روزہ رکھا جس میں لوگوں کو شک ہو تو اس نے ابو قاسم (نبی اکرم) صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی "

اس حدیث کو امام ابوداؤد، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا اور اسے صحیح قرار دیا اور امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام دارقطنی اور امام حاکم نے بھی اسے صحیح کہا ہے، امام ترمذی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں : حدیث عمار ”حسن صحیح“ درجے کی ہے، بہت سے اھل علم جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور انکے بعد تابعین کے نزدیک اس پر عمل ضروری ہے اور اسی لئے سفیان ثوری، مالک بن انس، عبداللّٰہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق فرماتے ہیں : " شک والے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے، اور ان میں بہت سے علماء و فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اس دن روزہ رکھا اور اس دن یکم رمضان تھا وہ اس دن کی قضا کرے گا۔

دوئم : حديث أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «لا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ یعنی: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" رمضان سے ایک یا دو دن پہلے ہرگز تم میں سے کوئی روزہ نہ رکھے، سواۓ اس آدمی کے جو اس دن کا پہلے بھی روزہ رکھتا تھا(یعنی اس کی عادت تھی) پس وہ اس دن روزہ رکھ سکتا ہے"۔

اس حدیث کو محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے، امام ترمذی فرماتے ہیں : حدیثِ ابو ہریرہ درجے کے اعتبار سے 'حسن صحیح' ہےاور اسی پر اھل علم کا عمل ہے، یعی: انسان کا رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے، رمضان سمجھ کر روزہ مکروہ ہے، اور اگر کوئی آدمی عادتاً روزے رکھتا تھا تو اتفاق سے اس دن یامِ شک آگیا تو کوئی حرج نہیں۔ 

سوئم: حديث عبد الله بن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلالَ فَصُومُوا وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ» متفق عليه. حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب (دوبارہ) چاند دیکھو تو چھوڑ دو اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو اس امہینے کی مدت(تیس دن) پوری کرلو ". متفق علیہ۔

اور اسی بناء پر علماء کا یوم شک کی تحدید میں اختلاف ہے : جمہور علماء حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک : یوم شک شعبان کے مہینے کا تیسواں دن ہے، جبکہ لوگ چاند نظر آنے کے متعلق گفتگو کر رہے ہوں اور رؤیت ثابت نہ ہوئی ہو یا وہ شخص رؤیت کی گواہی دے رہا ہو جس کی گواہی فسق وغیرہ کی وجہ سے غیر مقبول ہو، لیکن اگر کوئی بھی رؤیت پر گفتگو نہ کر رہا ہو تو مطلع کا ابر آلود ہونے یا نہ ہونے کا لحاظ کیے بغیر حضرت عمار بن یاسر کے اس قول " اللذی یشک فیہ الناس " کے ظاہر پر عمل کرتے ہوۓ اس دن کو یومِ شک نہیں کہا جاۓ گا اگرچہ آسمان ابر آلود ہی ہو۔

مالکی فقہاءِ کرام مطلع ابر آلود ہونے کو شک کی علت قرار دیتے ہیں ، پس اگر آسمان صاف ہو تو یوم شک نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اگر چاند نظر نہ آیا تو یقیناً وہ دن شعبان میں سے ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان "فان غم علیکم فاقدروا لہ" کویومِ شک کی تفسیر قرار دیتے ہیں اور ابن السلام مالکی نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: "فان غم علیکم فاقدروا لہ" اس بات پر دلیل ہے کہ ابر آلود شام کی صبح یقیقنی طور پر شعبان میں سے ہے۔

اور حنبلی فقہاءِ کرام بھی جمہور سے اتفاق تو کرتے ہیں لیکن ان کے نزدیک عمومی مذھب یہ ہے کہ مطلع کا ابر آلود ہونا اس دن کے یوم شک ہونے کی نفی کرتا ہے ؛ لہذا یہ دن ماہِ رمضان میں سے شمار ہو گا، اور کہتے ہیں کہ نبی کریم کا فرمان: "اذا رایتم الھلال فصوموا واذا رایتموہ فافطروا، فان غم علیکم فاقدروا لہ" صاف مطلع کے حکم اور ابر آلود مطلع کے حکم کے درمیان فرق واضح کر رہا ہے؛ پس جب مطلع صاف ہونے کی صورت میں روزے کے لئے رؤیت شرط ہے تو اس کے برعکس مطلع ابر آلود ہونے کی صورت میں رؤیت کی شرط نہیں ہو گی، اس لئے ان کے نزدیک "فاقدروا لہ" کا معنی ہے: بادلوں کی وجہ سے اس مہینے کو گھٹا کر چاند کو بادلوں کے نیچے مقدر جانو؛ ایسا انہوں نے حدیث کے راوی عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّہ عنہما کے مذھب پر عمل کرتے ہوئے کہا ہے۔

لیکن "فاقدروا لہ" کی تفسیر پر بہت سی صحیح صریح احادیث نبویہ آئی ہیں، جن کے مطابق اس کا معنی ہے (شعبان کے مہینے کے تیس دن مکمل کرو) اور یہ احادیث جمہور کے مذہب کو ترجیح دے رہی ہیں؛ اس معنی میں "مطلق" کو "مقید" پر محمول کیا گیا ہے، اور حدیث کی شرح حدیث ہی سے کرنا زیارہ بہتر ہوتا ہے جیسا کہ یہاں بھی ہے؛ اور اسی لئے بہت سے حنبلی اور مالکی فقہاء نے جمہور کے مذہب کو اختیار کیا ہے، امام نووی "المجموع" میں فرماتے ہیں: "پس صحیح وہی ہے جو جمہور نے کہا ہے، اور جو قول بھی ان کے  قول کے خلاف ہے وہ سابقہ صریح احادیث کی روشنی میں فاسد اور مردود ہے۔

کچھ علماء نے یومِ شک کی تحدید پر کتب لکھی ہیں، جیسا کہ مکۃ المکرمہ کے مفتی علامہ شیخ ابراھیم بن حسین بن بیری حنفی نے اس پر رسالہ لکھا جس کا نام "إزالة الضنك في المراد من يوم الشك".

یومِ شک کے روزے کے حکم کی دو صورتیں ہیں:

1-  انسان احتیاطاً رمضان کی نیت سے روزہ رکھے، تو جمہور علماء کے نزدیک اس دن ممانعت سے مراد یہی روزہ ہے، اس لئے کچھ فقہاء کرام نے اسے حرام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا روزہ صحیح نہیں ہو گا جیسا کہ اکثر شافعیہ یہی قول ہے۔ اور حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ نے اسے مکروہ کہا ہے۔ پھر اگر ظاہر ہوگیا کہ یہ رمضان ہی کا دن ہے تو لیث بن سعد اور حنفیہ کے نزدیک یہی روزہ کفایت کر جاۓ گا، اور مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک یہ روزہ کفایت نیہں کرۓ گا۔ اور حنابلہ کے نزدیک مطلع صاف ہونے کی صورت میں یہی حکم ہے، لیکن جب مطلع ابر آلود ہو تو کہتے ہیں کہ اس دن رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہوگا اور ان کے نزدیک یہ شک کا دن نہیں ہے؛ تاکہ راویِ حدیث سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ کے مذہب پر عمل ہو سکے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

امام احمد بن حنبل سے ایک اور روایت بھی ملتی ہے کے جو جمہور کے قول کے ساتھ موافقت رکھتی ہےاور اسے بہت سے محققین نے اختیار کیا ہے؛ کیونکہ اس پر صریح اور صحیح احادیث مبارکہ موجود ہیں، حتی کہ امام ابن تیمیہ حنبلی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ سے حافظ ابن ہادی حنبلی "تنقیح التحقیق" میں نقل کرتے ہیں : [اس مسئلے میں جس حکم پر بہت سی احادیث وارد ہیں- اور جس کا قواعد بھی تقاضا کرتے ہیں یہ ہے کہ اگر کسی بھی مہینے کے آخر میں مطلع ابر آلود ہو تو تیس دن مکمل کیے جائیں گے، چاہے وہ شعبان کا مہینہ ہو یا رمضان کا مہینہ ہو یا ان دونوں کے علاوہ کوئی مہینہ اور ہو]

اس بارے میں امام نووی کا کلام پہلے گزر چکا ہے۔

2-   رمضان کے علاوہ کوئی روزہ رکھا جاۓ، پس جمہور کے نزدیک اگر یومِ شک اس کے نفلی روزے کی عادت کے دن آ جاۓ تو جائز ہوگا جیسا کہ حضرت ابوہریرہ والی روایت میں آیا ہے، اور قضاء اور نذر کے روزے کا بھی یہی حکم ہو گا، اور عادت کے بغیر مطلقا نفلی روزہ رکھنا حرام ہے، شافعیہ کے نزدیک یہی صحیح ہے مگر جب اس نے شعبان کے آخری نصف کے روزوں سے ملا کر رکھا تو جائز ہے۔ اور احناف اور مالکیہ کے نزدیک  اس میں کوئی حرج نہیں۔

اس مسئلے پرجن آئمہ نے کتابیں لکھیں ان میں کچھ یہ ہیں: حافظ خطیب بغدادی شافعی نے "النھی عن صوم یوم الشک" ، اور حافظ ابو قاسم عبدالرحمان بن مندہ حنبلی نے "صیام یوم الشك" اس کتاب میں مطلع ابر آلود ہونے کی صورت میں روزہ رکھنے پر حنابلہ کا جو مذہب ہے اس انہوں نے اختلاف کیا ہے، اور حافظ ابو فرج بن جوزی حنبلی نے "درء الضیم واللوم فی صوم یوم الغیم" ، اور علامہ مرعی بن یوسف کرمی حنبلی نے "تحقیق الرجحان بصوم یوم الشک من رمضان".

اور اس دن روزہ رکھنے سے منع کرنے کی حکمت میں علماء عظام کا اختلاف ہے اور اس اختلاف کو حافظ ابن حجر العسقلانی نے "فتح الباری" میں ذکر کیا، فرماتے ہیں: اس میں حکمت: اس دن ترکِ روزہ سے رمضان کیلئے قوت حاصل کرنا ہے؛ تاکہ انسان رمضان میں پوری قوت اور نشاط کے ساتھ داخل ہو سکے، لیکن یہ قول محلِ نظر ہے؛ کیونکہ حدیث کا مقتضٰی یہ ہے کہ اگر کسی نے رمضان سے تین یا چار دن پہلے کے روزے رکے تو اس دن بھی جائز ہے۔۔۔اور اس کی حکمت میں ایک دوسرا قول یہ ہے: اس دن روزہ رکھنے سے نوافل کا فرائض سے اختلاط کا خدشہ پیدا ہوتا ہے ، لیکن یہ قول بھی محلِ نظر ہے؛  کیونکہ جس کی عادت تھی اس کے لئے جائز ہے جیسا کہ حدیث پاک میں گزرا ہے، اور ایک اور قول یہ ہے: چونکہ روزے کا حکم رؤیتِ ہلال کے ساتھ معلق ہے؛ تو جس نے رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھا تو اس نے اس حکم پر طعن کرنے کی کوشش کی اس لئے جائز نہیں ہے۔ اور یہی قول معتمد ہے]۔

 اور یہی وہ قول ہے جسے حافظ ابن حجر نے ممانعت کی حکمت کے طور ہر اختیار کیا، یہ بات اسلام کے رؤیتِ ہلال کے منہج کو جاننے کے بعد مزید واضح ہو جاتی ہے، پس جب فلکیاتی اعتبار سے رؤیت ممکن ہونے کی صورت میں حاکم ہی اس کی شہادتِ ثبوت کے صحیح ہونے کا فیصلہ کرتا ہے، پس اگر اس نے عدم ثبوت کا فیصلہ کر دیا تو اس کا حکم ظنی معاملات میں تنازعات کو ظاہرا اور باطنا ختم کر دیتا ہے، اور اختلاف کو رفع کر دیتا ہے، پس کوئی مسلمان اس بات کا مکلف نہیں ہے کہ جو کچھ "واقع" اور "نفسِ امر " میں ہے بہر صورت اس تک پہنچے، بلکہ غالب گمان یقین کے قائم مقام رکھا جاۓ گا، اور غالب غمان پر عمل کرنا شرعاً واجب ہے  اور یہ مسلمانوں کو ان کے دین میں قوت اور ثابت قدمی اور عبادت میں عمدگی سکھاتا ہے اور  انہیں خبردار کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ماہ رمضان کے عدمِ ثبوت کے حکم باوجود کچھ لوگوں کی رؤیت کے متعلق چہ مگوئیاں کرنے اور انتشار اور انارکی پھیلانے کی وجہ سے ایک ہی ملک کے مسلمان افواہوں کا شکار ہو جائیں۔ اور جب اس شخص کا ایسا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی نافرمانی ٹھہری تھی جو اس رؤیت کی صرف ترغیب دے رہا تھا جو صحیح شہادتوں سے ثابت نہیں ہوئی تھی اور جب حاکم نے ظنِ غالب کے ساتھ حکم صادر کیا تھا تو اس نے اس پر عمل نہیں کیا تھا۔ تو پھر اس سخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو جماعت کی مخافت کرتا ہے، نافرمانی کرتا ہے، تفرقے کے بیج بوتا ہے اور ایسی رؤیت کا خود بھی قائل ہے اور لوگوں اس پر اکساتا ہے جسے محکمہ فلکیات نے قطعی طور پر باطل قرار دیا ہو اور اہل وطن کے ہاں بھی یہ غیر معتمد ہو، جیسا کہ بہت سے خود کو عالم کہنے والے لوگ عصر حاضر میں کر رہے ہیں ان کے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی نقلی دلیل۔ اور ایسا کرنے والوں سے دو ممنوع کام سرزد ہو رہے ہیں: جماعت میں تفرقہ پیدا کرنا، دوسرا یہ کہ ایسی رؤیت کا اعتبار کرنا جس کا باطل ہونا حتماً معلوم ہوچکا ہے۔ اور مزید یہ کہ ایسا کر کے  وہ حق سے پہلو تہی کرتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas