عقودِ فاسدہ سے حاصل ہونے والے مال س...

Egypt's Dar Al-Ifta

عقودِ فاسدہ سے حاصل ہونے والے مال سے حج کرنا

Question

کیا عقودِ فاسدہ سے حاصل ہونے والے مال سے حج کرنا جائز ہے مثلاً غیر مسلم لوگوں کو غیر مسلم ملک میں شراب بیچنا ، ان کے ساتھ سود کا کاروبار کرنا۔ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سيدنا رسول اللہ وعلى آله وصحبه و من والاه۔ وبعد: یہ ایک قدیم مسئلہ ہے جس کے بارے میں علماء کرام نے گفتگو کی ہے اور فقہاءِ احناف کا اس بارے میں مؤقف یہ ہے: امام ابو حنیفہ اور امام محمد نے کہا کہ دارالحرب میں مسلمان اور حربیوں کے درمیان کوئی ربا نہیں ہے۔ مسلمان کا کسی بھی طرح سے ان سے رقم لینا ٹھیک ہے۔اور یہاں تک کہ عقود فاسدہ جیسے جوئے یا مردار اور شراب کی خرید و فروخت کےذریعے سے، امام محمد نے کہا: «اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں امان طلب کر کے داخل ہو جاتا ہے تو اس کے لئے غیر مسلموں سے ان کی رضا جوئی کے ساتھ کسی بھی طرح سے مال لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
پھر انہوں نے کہا: کہ اگر مسلمان مستامن نے پناہ لی -یعنی حربیوں سے- اور ان کو ایک درہم دو درہم کے بدلے ایک سال کی مدت تک بیچا اور پھر دار اسلام میں آ گیا ،پھر ان کے پاس لوٹ گیا یا اسی سال دار اسلام میں آ گیا اور پھر ان کے پاس واپس آیا اورسال مکمل ہونے کے بعد اس نے دراہم لے لئے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
السرخی نے امام مکحول کی مرسل روایت بیان کرنے کے بعد کہا ، "دارالحرب میں مسلمانوں اور دار الحرب کے لوگوں کے مابین کوئی ربا نہیں ہے"۔ اور دارالحرب میں مسلمان اور حربیوں کے درمیان ایک درہم کو دو درہم کے بدلے میں بیچنے کے جواز پر امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد کی دلیل کی بھی یہی حدیث ہے، نیز اگر اس نے ان کو مردار بیچا یا جوا کھیلا اور جوئے سے ان سے رقم لی ، تو امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک یہ رقم اس کے لئے مالِ طیب ہے۔
اور امام ابو حنیفہ اور محمد کا مذہب ہی احناف کے نزدیک معتبر اور مختار ہے ، امام سرخسی رحمہ اللہ نے سابقہ متن کے بعد کہا: «اور ہماری یعنی احناف کی دلیل یہ ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ رضی اللہ عنھم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا : «دورجاہلیت کا تمام سود ختم کردیا گیا ہے اور اللہ تعالی نے فیصلہ فرمایا دیا ہے کہ پہلا سود جو ختم کیا جا رہا ہے وہ حضرعباس بن عبدالمطلب کا سود ہے“۔
یہ اس لئے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو وہ مکہ واپس لوٹ آئے اور وہ سود کا لین دین کرتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا عمل چھپایا نہیں کرتے تھے، جب آپ نے اس سے منع نہیں کیا تو گویا کہ یہ جائز ہے . اور جو سود ختم کیا گیا ہے وہ ہے جو فتحِ مکہ تک قبضے میں نہیں لیا تھا؛ کیونکہ فتح مکہ کے بعد مکۃ المکرمہ دارِ اسلام بن گیا تھا۔
امام المرغيناني، امام كمال بن الهمام امام حصكفي، امام ابن عابدين ان سب نے کہا: " کہ دارالحرب میں مسلمان اور حربیوں کے درمیان کوئی ربا نہیں ہے" اورانہوں نے بتایا کہ دارالحرب میں ایک مسلمان کسی بھی طرح دھوکہ دہی کے بغیر حربيوں کا مال لے سکتا ہے۔
احناف کے کلام کا بظاہر یہی مطلب ہے کہ یہ حکم کسی مسلمان کا دارالحرب میں سود میں لینے اور دینے میں عام ہے ، لیکن کمال ابن الھمام نے بیان کیا کہ احناف کےآئمہ نے اپنے دروس میں دارالحرب میں مسلمان کےلئے سود کے جواز کو صرف حربی سے لینے کی قید لگائی ہے ، پھر آپ نے کہا : " اس میں یہ کوئی خفاء نہیں کہ اگر یہ اضافہ مسلمان لیتا ہے یہ بات عقدِ ربا کے حلال ہونے کی مقتضی ہے ، اور ربا اس سے زیادہ عام اور وسیع ہے کیونکہ اس میں دو درہم کا مسلمان کی طرف سے ہونا یا کافر کی طرف سے ہونا دونوں صورتیں شامل ہیں ،اس مسئلے کا جواب حلال ہونے کے ساتھ دینا دونوں جہتوں میں عام ہے ، اور جوا بھی اسی طرح ہے اس میں خطرے کا مال کافر کے لئے ہوسکتا ہے، یعنی غلبہ اسے بھی ہو سکتا ہے، لیکن ظاہر کلام کے مطابق اگر زائد مال مسلمان کو حاصل ہو تو مباح ہو، اوراحناف اپنے دروس میں اس بات کے ملتزم رہے ہیں کہ اگر یہ اضافہ مسلمان کو ملے تو علت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سود اور جوا جائز ہے، اگرچہ جواب کا اطلاق اس کے برخلاف ہے،اسے امام ابنِ عابدین نے نقل کیا ہے۔
اور ظاہر مذہب پر عمل کرنا بھی ممکن ہے جب آخر میں مصلحت مسلمان کے حق میں ہو اگرچہ وہ زیادہ ہی ادا کرے۔ احناف نے اپنے موقف کےلئے جن دلائل سے استدلال کیا ہے ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں ۔
۱-
مکحول سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دارِ حرب میں مسلمان اور حربیوں کے درمیان کوئی ربا نہیں ۔ امام سرخسی نے کہا ہے: اگرچہ یہ روایت مرسل ہے لیکن مکحول ثقہ اور فقیہ ہیں ان جیسے لوگوں کی مرسل روایت مقبول ہوتی ہے اسی دلیل سے امام مرغینانی اور علامہ کمال بن ہمام نے بھی استدلال کیا ہے۔
۲- امام محمد رحمہ اللہ نے بنی قینقاع والی حدیث سے استدلال کیا ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو وہاں سے نکالا تو انہوں نے کہا: " ہمارے کچھ قرضے ہیں جن کی ابھی مدت نہیں آئی ۔" تو آپ ﷺ نے فرمایا: « فورا لے لو یا چھوڑ دو، اور جب بنی نضر کو نکالا گیا تو انہوں نے کہا:« لوگوں پر ہمارے قرض ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: «چھوڑ دو یا فورا لے لو۔
امام سرخسی نے وجہ استدلال بیان کرتے ہوۓ کہا: یہ بات تو معلوم ہے کہ اس طرح کا معاملہ حضور کے اس قول میں”ضعوا او تعجلوا " (چھوڑ دو یا فورا لے لو) مسلمانوں کے درمیان جائز نہیں ہے ، جس مسلمان کا پاس دوسرے مسلمان پر دَینِ مؤجل ہو تواس شرط پر مال چھوڑ دینا جائز نہیں ہے کہ کچھ مال ابھی دے دے باقی چھوڑ دیتا ہوں، اسی طرح سیدنا عمر ، زید بن ثابت اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھم نے اس صورت کو ناپسند کیا ہے ، اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں اس صورت کو جائز قرار دیا ہے؛ کیونکہ وہ اس وقت حربی تھے اسی لئے ان کو نکالا گیا تھا، تو پتا چلا کہ مسلمان اور حربی کے مابین وہ معاملات جائز ہیں جو مسلمانوں کے درمیان جائز نہیں ہیں۔
تو مذکورہ ادلہ کی بناء پر ہم کہیں گے کہ دارِ حرب میں مسلمان اور غیر مسلم کے مابین عقودِ فاسدہ سے حاصل ہونے والے مال سے حج کرنا جائز ہے؛ کیونکہ یہ پاک مال ہے، جیسا کہ امام سرخسی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: '' اسی طرح اگر مسلمان نے ان کو مردار بیجا یا جوا کھیلا اور جوۓ کے ذریعے سے ان سے مال لیا تو یہ مالِ طیب ہو گا۔
جب مال مالِ طیب ہے تو تمام فقہاء عظام کے نزدیک اس کے ساتھ حج کرنا جائز ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas