قبر کو مس کرنے اور بوسہ دینا کا حکم...

Egypt's Dar Al-Ifta

قبر کو مس کرنے اور بوسہ دینا کا حکم

Question

کیا اولیاء اور صالحین کی قبروں کو مس کرنا اور بوسہ دینا جائز ہے اور اس عمل سے برکت حاصل ہوتی ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ انبیاء اور صالحین کی قبروں کو مسح کرنا اور ان کو بوسہ دینا شریعت کی رو سے جائز ہے۔ یہ صاحبِ قبر سے حصولِ برکت، ان کی تعظیم کرنے اور ان کا احترام کرنے کے قبیل سے ہے، اس میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اس عمل پر شرعی دلائل دلالت کرتے ہیں، اور ہر زمانے اور ہر ملک میں مسلمانوں کا یہی عمل رہا ہے.
یحیی علوی اور حافظ ابنِ جوزی نے "الوفاء" -روایت کیا ہے جیسا کہ امام صالحی رحمھم اللہ نے "سبل الهدى والرشاد" (12/ 237، ط. دار الكتب العلمية)- میں سیدنا علی ابنِ ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے: آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی تدفین ہو چکی تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا تشریف لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس کھڑی ہوئیں اور قبرِ مبارک سے مُھٹی بھر مٹی لے کر اپنی آنکھوں پر رکھی اور روتے ہوےٴ فرمانے لگیں:
ماذا على من شمّ تربة أحمد ... أن لا يشمّ مدى الزّمان غواليا
صبّت عليّ مصائب لو أنّها ... صبّت على الأيّام عــدن ليــاليـا

امام صالحی رحمہ اللہ نے بھی " سبل الهدى والرشاد" (12/ 398) میں نقل کیا کہ خطیب بن جملہ نے ذکر کیا ہے کہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا دایاں ہاتھ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی قبرِ انور پر رکھا کرتے تھے۔۔ اور کہا کہ بلاشبہ عشقِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم ہی ایسا کرنے پر ابھارتا ہے، اور ایسا کرنے کا مقصد آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی تعظیم کرنا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کا احترام کرنا ہے، اور عشقِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم میں لوگوں کے درجات مختلف ہوتے ہیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں لوگوں کے درجات مختلف تھے، کیونکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جب وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کو دیکھتے تو اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے تھے، بلکہ وہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے پاس جانے میں ایک دوسرے پر پہل کرتے تھے، اور کچھ لوگ ایسے تھے کہ جو آرام سے جاتے تھے، اور یہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ کار خیر کر رہے ہوتے تھے۔ حافظ نے کہا: ان میں سے بعض نے حجر اسود کو بوسہ دینے کے جواز سے یہ اخذ کیا ہے کہ ہر اس چیز کو بوسہ دینا جائز ہے جو تعظیم کی مستحق ہو، خواہ انسان ہو یا کچھ اور۔
اسی پر اسلاف اور محدثین رحمھم اللہ کا عمل رہا ہے اورمعمول بہا مذاہب فقیہ کا معتمد علیہ مؤقف بھی یہی رہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے "تهذيب التهذيب" (7/ 388، ط. مطبعة دائرة المعارف النظامية): میں کہا ہے: [امام حاکم (صاحب مستدرک) "تاریخ نیشاپور" میں لکھتے ہیں: میں نے ابو بکر محمد بن المؤمل کو یہ کہتے ہوئے سنا: ہم اپنے شیوخ کی ایک جماعت کے ہمراہ امامِ المحدثین ابو بکر بن خزیمہ کے ساتھ ساتھ نکلے، درآنحال کہ وہ طوس میں علی بن موسی الرضا کی قبر کی زیارت کے لیے جارہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن خزیمہ کو دیکھا کہ آپ اس جگہ کی اس قدر تعظیم کر رہے ہیں، عاجزی اور انکساری کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم حیران رہ گئے]
شافعی حضرات کے نزدیک بوسہ دینا مباح ہے کیونکہ بوسہ دینے کا مقصد صاحبِ مزار سے برکت حاصل کرنا ہوتا ہے اور اس نیت سے بوسہ دینے میں شریعت کے اندر کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ علامہ شمس رملی رحمہ اللہ نے "نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج" (3/ 34، ط. دار الفكر) میں کہا ہے: [اگر کوئی شخص ان کے مزارات کو بوسہ دینا چاہے تو اس عمل کو مکروہ نہیں کہا جاےٴ گا، اور والد گرامی - رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی یہی فتویٰ دیا تھا]۔ الشیخ راشدی اس پر حاشیہ لگاتے ہوےٴ فرماتے ہیں: [ان کے قول "ہاں اگر اس نے ان کے مزاروں کو بوسہ دے کر برکت حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہو۔۔۔الخ" پر فرماتے ہیں کہ ان کے مزارات کو باسہ دینے کی یہی حقیت ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی کسی اور غرض سے بوسہ نہیں دیتا۔
اور شیخ البجرمی نے اپنی کتاب "حاشيته على شرح المنهاج" (1/ 495، ط. مطبعة الحلبي) میں کہا: [اگر کوئی حصولِ برکت کیلئے ان کے مزارات کو بوسہ دینا چاہے، تو مکروہ نہیں ہوگا، اور یہی معتمد راےٴ ہے۔ برماوی] ۔
اور امام عینی نے "عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری" 9/ 241)، ط. دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: مجھے ابن العلائی نے خبر دی کہ کہا: میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے کلام کے پرانے نسخے کا ایک جزء دیکھا جس پر ناصر اور دیگر علماء نے بھی لکھا ہے کہ امام احمد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر مبارک کو چومنے کے بارے میں پوچھا گیا، آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ کلام شیخ تقی الدین ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اس پر حیران ہوئے اور کہنے لگے: مجھے تعجب ہو رہا ہے! امام احمد کا تو میرے ہاں بڑا مقام ہے کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں؟ یہ ایک اسفہامِ انکاری ہے؛ یعنی: کیا واقعی وہ یہ کہہ رہے ؟ تو زین الدین کہنے لگے: اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ ہم نے یہ بھی امام احمد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے شافعی کی قمیص کو دھویا اور پھر جس پانی سے اسے دھویا وہ پانی بھی پی لیا تھا۔ محب طبری نے کہا: حجرِ اسود کو بوسہ دینے اور استلامِ ارکان سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ جس شیئ کو بوسہ دینے سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہو رہی ہو اسے چومنا جائز ہے]۔
اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے "سیر اعلام النبلاء" 11/ 212)، ط. مؤسسة الرسالة (میں فرمایا: [ احمد پر بہتان لگانے والے اور ملامت کرنےوالے کہاں ہیں، حالانکہ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ عبداللہ نے اپنے والد یعنی (امام احمد) سے اس شخص کے حکم کے بارے میں پوچھا جو منبر مبارک کے دستے کو مس کرتا ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے حجرہ طیبہ کو مس کرتا ہو؟ تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نظر نہیں ہے۔"... امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی کہ خدا ہمیں اور آپ سب کو خوارج کی رائے سے اور بدعت سے محفوظ رکھے۔]
اور ہر زمانِ ومکان میں مسلمانوں کا یہی عمل رہا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas