پیشاب کی تھیلی لگے مریض کی طہارت کی...

Egypt's Dar Al-Ifta

پیشاب کی تھیلی لگے مریض کی طہارت کی کیفیت

Question

پیشاب کی تھیلی لگے مریض کی طہارت کا طریقہٴ کار کیا ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر مریض کو پیشاب کی تھیلی لگی ہوئی ہو، اور پیشاب پر اس کا قابو نہ ہو یعنی اس کے ارادے کے بغیر پیشاب نکلے تو یہ شخص طہارت سے مستثنیٰ ہے۔ اور اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ نجاست کی جگہ کو دھوےٴ، پھر پیشاب کرنے والے عضو پر کچھ باندھے، پھر وضو کرے، اور اس کا یہ وضو اس فرض نماز کے آخر وقت تک فاسد ہو جاتا ہے جس کے لیے اس نے وضو کیا تھا، اور جب اگلی نماز کا وقت شروع ہو گا تو اس کے لیے دوبارہ وضو کرے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص پیشاب پر قابو پا سکتا ہو یعنی اس تھیلی میں پیشاب اس کے ارادے سے نکلتا ہو تو بیشاب نکلنے کی صورت میں کسی بھی ایسی عبادت کے لیے اس پر وضو واجب ہو گا جس کیلئے طہارت ضروری ۔
یورینری کیتھیٹر جسم کے باہر لگی اس تھیلی کو کہتے ہیں جس میں مریض کے جسم کے اندر رکے ہوےٴ پیشاب کا اخراج ہوتا ہے۔
اور یہ پیشاب جو بدن سے نکلتا ہے، اس میں شرعی اصول یہ ہے کہ یہ وضو کو باطل کر دیتا ہے، اور وضو کو باطل کرنے والے اسباب میں سے (پیشاب یا رفعِ حاجت کے) دونوں راستوں میں سے کسی چیز کا نکلنا بھی ایک سبب ہے اور اس میں پیشاب اور رفعِ حاجت وغیرہ بھی شامل ہے؛ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ﴾ [النساء: 43]۔ یعنی : "یا کوئی تم میں سے جائے ضرور (رفع حاجت) سے آیا ہو"۔
سیدنا ابو هريرة رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: «لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ»، رواه مسلم. یعنی: "بے وضو جب تک وضو نہ کر لے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی"۔
اور صفوان بن عسّالٍ مُرادِي رضي الله عنه فرماتے ہیں: "أَمَرنا رسولُ الله صلى الله عليه وآله وسلم إِذَا كُنّا سَفْرًا ألَّا نَنْزعَ خِفَافَنا ثلاثةَ أيامٍ بِليَالِيهنَّ، إلا من جنابة، ولكن من بولٍ، أو غائطٍ، أو نومٍ" رواه الترمذي. یعنی: " ہمیں نبی اکرم صلی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ جب ہم سفر پر ہوں تو تین دن اور تین راتیں موزے نہ اتاریں، سواےٴ حالتِ جنابت کے، لیکن پیشاب اور رفعِ حاجت کرنے اور نیند کی وجہ سے (نہ اتاریں)۔ اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
پس یہ حدیثِ مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ پیشاب، رفعِ حاجت اور نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
امام عبد الرزاق اپنی کتاب "المصنف" میں عبد اللهِ بن مَسْعُودٍ رضي الله سے روایت کرتے ہیں: "إِنَّمَا الْوُضُوءُ مِمَّا خَرَجَ، وَلَيْسَ مِمَّا دَخَلَ، وَالْفِطْرُ فِي الصَّوْمِ مِمَّا دَخَلَ، وَلَيْسَ مِمَّا خَرَجَ". یعنی: "وضو جسم سے خارج ہونے والی اشیاء سے ٹوٹتا ہے نہ کہ داخل ہونے والی اشیاء سے اور روزہ داخل ہونے والی اشیاء سے ٹوٹتا ہے نہ کہ خارج ہونے والی اشیاء سے۔
اصطلاح فقہاء میں وضو ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے: ان عبادات میں سے کچھ بھی کرنا صحیح نہیں ہوتا جن کیلئے شریعتِ مطہرہ نے طہارت کو شرط قرار دیا ہے۔
لیکن مذکورہ حالت میں کوئی بھی ایسی عبادت ادا کرنے کیلئے جس میں طہارت شرط ہو اس مریض کی دو صورتیں ہوں گی:
یا تو پیشاب پر اس کا قابو ہے یعنی اس کے ارادے سے نکتا ہے یا اس کے قابو میں نہیں ہے۔ پس اگر اس کے قابو میں نہیں یعنی بغیر ارادے کے نکلتا ہے تو یہ صورت ان صورتوں میں سے ایک ہے جن میں فقہاءِ کرام نے اس شخص کے معذور ہونے کی وضاحت کی اور اس کیلئے طہارت شرط نہیں ہے۔ اور فقہاءِ کرام کے ہاں یہ «السَّلَس» کے نام سے معروف ہے لہذا اس وقت اسے طہارت معاف ہو گی۔ اور اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ نجاست کی جگہ کو دھوےٴ، پھر پیشاب کرنے والے عضو پر کچھ باندھے، پھر وضو کرے، اور اس کا یہ وضو اس فرض نماز کے آخر تک فاسد ہو جاتا ہے۔ جس کے لیے اس نے وضو کیا تھا، اور جب اگلی نماز کا وقت شروع ہو گا تو اس کے لیے دوبارہ وضو کرے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص پیشاب پر قابو پا سکتا ہو تو بیشاب نکلنے کی صورت میں عبادت کے لیے ضروری طہارت اس پر واجب ہے ۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas