بیوی کے شرعی حقِ مہر کی حقیقت...

Egypt's Dar Al-Ifta

بیوی کے شرعی حقِ مہر کی حقیقت

Question

 ایک نوجوان نے ایک لڑکی سے منگنی کی اور اس کے والد سے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس کا مہر دس ہزار پاؤنڈ ہوں گے، جس میں مہر اور زیور دونوں شامل ہیں اور والد نے یہ رقم وصول بھی کر لی، اور عقد نکاح کی تاریخ سے پہلے لڑکی کے سرپرست نے اسے مطلع کیا کہ شریعت کہتی ہے کہ مہرِ مؤجل کی ادائیگی بھی ضروری ہے، اور یہ رقم لڑکی کے گھر والوں کے سامنے اس کی تقییم اور تقدیر سمجھی جاتی ہے۔
کیا اسلام میں کسی ایسی رقم ادا کرنا جائز ہے جس پر اتفاق نہ ہو؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر سائل اور لڑکی کے والد کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو جائے کہ مہر اور زیور وہی رقم ہوگی جو سوال میں مذکور ہے، اور وہ رقم اسے دے بھی دی گئی ہو، تو لڑکے نے اپنی دلہن کا مہر ادا کر دیا ہے، اور جس پر اتفاق کیا گیا تھا اس کے علاوہ لڑکے کو کسی اور چیز کا پابند نہیں بنایا جاےٴ گا، اور شوہر کو اپنے ازدواجی گھر کو عرف کے مطابق فرنیچر سے آراستہ کرنا چاہیے۔
تفصیلی جواب:
مہر - جسے عربی میں صداق اور نحلہ بھی کہا جاتا ہے- وہ مال ہے جو شریعتِ مطہرہ نے بیوی کیلئے شوہر پر واجب کیا ہے اور اس کا سبب یا تو عقدِ نکاح ہے یا اس کا سبب شوہر کا بیوی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا ہے۔ مہر کے واجب ہونے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: ﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً﴾ [النساء: 4]، یعنی: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دو"۔ صحابہ کرام کے زمانے سے لے کر آج تک علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے۔ مہر کے بیان کرنے اور مقرر کرنے اور شوہر کے ذمے واجب الادا ہو جانے کے بعد یہ مال خالصتا‏ بیوی کا حق بن جاتا ہے۔ اور بیوی شوہر کے ساتھ یہ طے کر سکتی ہے کہ تمام مہر مؤجل ہو گویا کہ تمام " مہر معجل " ہوگا یا کچھ حصہ " مؤجل " ہو گا اور باقی "معجل " ہوگا چاہے تاریخِ تاجیل قریب ہو یا دور ہو، اور چاہے اسے کسی مخصوص تاریخ تک موخر کر دیں یا دو مدتوں یعنی موت یا طلاق میں سے قریب ترین تک ۔
اس کی بنا پر: اگر سائل اور لڑکی کا والد اس بات پر متفق ہو چکے تھے کہ مہر اور زیور کی رقم دس ہزار پاؤنڈ ہوں گے اوریہ رقم ادا بھی کر دی گئی تھی ، تو لڑکے نے اپنی دلہن کا مہر ادا کر دیا ہے، اور جس بات پر اتفاق کیا گیا تھا اس کے علاوہ لڑکے کو کسی اور چیز کا پابند نہیں بنایا جاےٴ گا، اور شوہر کو اپنے ازدواجی گھر کو عرف کے مطابق فرنیچر سے آراستہ کرنا چاہیے ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ» یعنی: "مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں۔"
والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas