قرضدار کا قرض معاف کركے اسے زکوٰۃ میں شمار کر لینا
Question
ہمارے مسلمان بھائیوں کے پاس اٹکے ہوئے قرضہ جات کو زکوٰۃ کے طور پر اگرمعاف کیا جائے ، یعنی اگر ان قرضہ جات كو زکوٰۃ میں سے شمار کرليا جائے اور ان لوگوں کو اس بات کی خبر نہ دی جائے ، بلکہ صرف یہ کہا جائے کہ ہم نے قرض معاف کر دیا ہے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
Answer
لٹکے ہوئے قرضوں کو معاف کرنا اور انہیں ادا کردہ زکوٰۃ میں سے شمار کرنا ، نیز قرضدار کو صرف معافی کی خبر دینا یہ محسوس نہ ہونے دینا کہ زکوٰۃ ميں چھوڑا گیا ہے ، شوافع کے نزدیک ایک قول کے مطابق ایسا عمل جائز ہے اور مالکیوں میں سے حضرت اشھب کی رائے بھی یہی ہے اس کے علاوہ امام جعفر صادق ، حضرت حسن بصری اور حضرت عطاء کا بھی یہی مذہب ہے ، کیونکہ اس قسم کے قرضدار زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں سے ''غارمین'' کی صنف میں شامل ہیں.
اس رائے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تنگ دست سے قرض معاف کرنے کا نام خیرات رکھا ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے:(وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ( اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک ، اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لئے اور بھلا ہے اگر جانو [البقرۃ:٢٨٠] ، تنگ دست قرضدار کو یہ خیرات دینا اگر چہ اس میں قبضہ اور ملکیت نہیں ہے مگر امور کا دار و مدار مقاصد پر ہونے کا لحاظ کرتے ہوئے معاف کرنا قبضہ کی طرح ہی ہے ، کیونکہ اگروہ اسے اپنی زکوٰۃ دیتا پھر اپنا قرض واپس لیتا تو جائز تھا ، اسی طرح اگر وہ اس کا قرض زکوۃ میں معاف کر دیتا ہے تو جائز ہو نا چاہئے کیونکہ دونوں صورتوں میں مقصد حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ قرضدار کے دل سے قرض کی پریشانی دور کی جائے . ہمارے نزدیک اس رائے پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس میں تنگ دست قرضداروں پر شفقت اور ان کے ذمے سے قرض کا بوجھ ختم کرنے کی آسانی پائی جاتی ہے.
اسی طرح قرضداروں کو یہ محسوس نہ ہونے دینا کہ وہ مال زکوٰۃ کا ہے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ اس میں ان کی دلجوئی اور ان کے جذبات کی قدر اور ان کی غیرت کا لحاظ شامل ہے ، یہ امور ان بلند ترين اخلاق کا حصہ ہیں جن کی اسلام میں ترغیب آئی ہے اور مذهب اسلام مسلسل اس کی دعوت دیتا ہے.
باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.