کیا قصاص میں عورت مرد کے برابر ہے؟

Egypt's Dar Al-Ifta

کیا قصاص میں عورت مرد کے برابر ہے؟

Question

ت سال ٢٠٠٥ ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

غزالہ اور مکاوی نامی دو خاندانوں میں لڑائی چھڑ گئی ، اس لڑائی میں مکاوی خاندان کے ایک فرد نے غزالہ خاندان کی ایک عورت کو گولی ماردی جس کے نتیجے میں وہ عورت کچھ دنوں ہسپتال میں زیر علاج رہی پھر چل بسی، انتقام میں اس عورت کے بیٹوں نے اس شخص کو قتل کر ڈالا ، اور اس طرح ١٩٨٦ء میں اس مسئلے کا خاتمہ ہوگیا.
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا جان کے لحاظ سے عورت قصاص میں مرد کے مساوی ہے؟ اگر اس مقتول آدمی کا بیٹا یہ ارادہ رکھتا ہو کہ غزالہ خاندان کے ایک دوسرے آدمی کو قتل کر دے تو اس بارے میں اسلام کا کیا موقف ہے کیا یہ جائز ہو گا؟، اور اگر اس حالت میں دونوں خاندانوں کے افراد ایک دوسرے کو کفن دیں تو شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟.

Answer

اللہ تبارک وتعالی نے ایسے مجرموں کو باز رکھنے کے لئے قصاص کا حکم نازل فرمایا ہے جو پر سکون اور محفوظ لوگوں کی زندگیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بن جاتے ہیں ، اور ان کے حقوق اور عزت و آبرو پر دست درازی کرتے ہیں اور روئے زمین پر بد امنی، بے چینی اور فساد پھیلاتے ہیں، کیونکہ ایسی حرکتوں سے یقینی طور پر اخلاق و کردار پامال ہوتے ہیں، اور ان سے افراد ، خاندان اور معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں، بلکہ ایسی حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالی کی شریعت کے متعلق بد ظنی پھیلتی ہے اور لوگوں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور امن و سلامتی فراہم کرنے کی قدرت و صلاحیت کے بارے میں بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس زمین کوآباد کرنے کا حکم دیا ہے اور یہاں اپنے احکام کی تعمیل کا حکم فرمایا ہے، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِيْ الأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۔ اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقلمندو کہ تم کہیں بچو۔ [البقرۃ ١٧٩]، اور وہ زندگی جس کا سر چشمہ قصاص کو قرار دیا گیا ہے اس طور پر ہے کہ مجرم اس کے خوف سے ابتدا سے ہی ارتکاب جرم سے باز رہتا ہے، کیونکہ جس شخص کو یہ یقین کامل ہو کہ وہ اس جرم کے نتیجے میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا وہ ضرور ضرور ابتدا ہی سے ارتکاب جرم سے باز رہے گا ، سوچے گا ، اور پس و پیش میں پڑے گا، اسی طرح جب مجرم واقعی قتل کر دیا جائے تو مقتول کے وارثین کینہ اور انتقام کی خواہش سے پاک ہو جائیں گے اور تشفی محسوس کرینگے ، واضح رہے کہ انتقام کی خواہش عربی خاندانوں میں كسي حد تک محدود نہیں رہتی تھی ، بلکہ ان کی وقفے وقفے کی جنگیں چالیس چالیس سال تک جاری رہتی تھیں جیسا کہ مشہور جنگ ''بسوس'' کا حال ہوا ، نيز ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ خاندانی کینے کے ذبح خانوں میں كس طرح نسل در نسل خون بہتا رہتا ہے.
قصاص میں زندگی کا مفہوم ہر لحاظ سے موجود اور جلوہ گر ہے ، کیونکہ ایک فرد کی زندگی پر دست درازی کرنا اصل میں ساری انسانیت کی زندگی پر دست درازی کرنے کے مترادف ہے، اس لئے کہ صفت زندگی میں سارے انسان برابر کے شریک ہیں ، اس لئے جب قصاص مجرم کو ایک روح ضائع کرنے سے روکتا ہے تو گویا کہ ساری انسانیت کی زندگی پر دست درازی کرنے سے روک لیتا ہے ، لہذا اس روکنے میں زندگی پائی گئی بلکہ جامع زندگی پائی گئی ، صرف ایک فرد یا ایک خاندان یا ایک جماعت کی زندگی نہیں بلکہ زندگی اپنی تمام تر جامعیت کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہے.
لیکن یہاں یہ واضح رہے کہ ہر قتل پر قصاص واجب نہیں ہوتا، بلکہ جان بوجھ کر قتل کرنے پر واجب ہوتا ہے اور مخصوص شرائط کے ساتھ جن شرائط کو فقہائے کرام نے مفصل طور پر بیان کیا ہے.

مذکورہ بالا بیان اور سوال کی روشنی میں مندرجہ ذیل مسائل ماخوذ ہوتے ہیں:
اول: عورت کے بدلے میں مرد قتل کیا جائیگا ، یہی جمہور فقہائے کرام کی رائے ہے ، اس بارے میں ان کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے: (وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ) - اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے ، پھر جو دل کی خوشی سے بدلہ کراوے تو وہ اس کا گناہ اتار دے گا ، اور جو الله کے اتارے پر حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں- [المائدۃ: ٤٥]، نیز اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: )وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِيْ الأَلْبَاب لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) - اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقل مندو کہ تم کہیں بچو - [البقرۃ ١٧٩]، واضح رہے کہ یہ ایک عمومی حکم ہے سوائے اس کے جس کی خصوصیت پر کوئی دلیل ہو.
حدیث شریف ميں وارد ہے کہ ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے باپ سے، انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کی طرف ایک فرمان بھیجا جس کا مضمون یہ تھا: ''مرد عورت کے بدلے میں قتل کیا جائیگا''، اس حدیث کی عبد الرزاق اور دار قطنی وغیرہ نے روایت کی ہے.
اس لئے بھی کہ مرد اور عورت دونوں ایسے ہیں کہ اگر وہ آپس میں ایک دوسرے کو تہمت باندھے تو ان پر اسی طرح حد نافذ ہو گی جس طرح دو مردوں کے درمیان تہمت باندھنے پر ہوتی ہے، لہذا قصاص میں بھی عورت مرد کے برابر ہو گی.
دوم: کسی بھی شخص کے لئے خود بخود قصاص لینا جائز نہیں ہے، بلکہ قصاص لینے والی عدالت میں مقدمہ پیش کرنا لازمی ہے.
سوم: ایک خاندان کا دوسرے خاندان کو کفن پیش کرنے کا مسئلہ ایسا ہے جس پر قرآن و سنت اور سلف صالحین سے کوئی نص وارد نہیں ہے، یہ ایک نئی رسم ہے جس کے ذریعے یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ اب سے ان خاندانوں کے درمیان جنگ و دشمنی کا ماحول ختم ہو چکا ہے، اس عمل میں شرعی لحاظ سے کوئی ممانعت نہیں ہے.

جاننا چاہئے کہ قصاص مندرجہ ذیل امور میں سے کسی ایک امر سے ساقط ہو جاتا ہے:
١۔ مقتول کے وارثین کی معافی سے یا ان میں سے ایک شخص کی معافی سے مگر شرط یہ ہے کہ وہ بالغ اور عاقل ہو.
٢۔ قصاص لینے سے پہلے مجرم کے مر جانے سے. اور قصاص کے ساقط ہوجانے کے باوجود تاوان واجب رہے گا، لیکن اگر وارث معاف کر دیں تو وہ بھی ساقط ہوجاتا ہے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas