حکمِ شرعی کو عقل کے ذریعے سے منسوخ ...

Egypt's Dar Al-Ifta

حکمِ شرعی کو عقل کے ذریعے سے منسوخ کرنا

Question

کیا حکمِ شرعی کو عقل کے ذریعے سے منسوخ کرنا جائز ہے؟ 

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛: عربی زبان میں نسخ کہتے ہیں کسی چیز کو باطل کر کے دوسری چیز کو اس کے قائم مقام کر دینا، ایک چیز دوسری چیز کو منسوخ کردیتی ہے یعنی اسے زائل کر کے خود اس کی جگہ پر آ جاتی ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ '' نسخت الشمس الظل '' یعنی سورج نے سائے کو زائل کر دیا۔ دیکھیے "لسان العرب" (3/ 61، ط. دار صادر)، اور کتاب کو نقل یا کاپی کرنے کو بھی نسخ کہا جاتا ہے کیونکہ استفادہ کرنے میں منقول کتاب اصل کتاب کے قائم مقام ہو جاتی ہے؛ لہذا اصل کتاب کیلئے افادہ کا اختصاص زائل ہو گیا اور اب اس کی بجائے کسی اور کتاب سے بھی استفادہ کیا جا سکتا تھا، گویا اس میں بھی باطل کرنا پایا جا رہا ہے کیونکہ کسی دوسری کتاب کو اس کے قائم مقام کر دیا گیا ہے۔
امام زرکشی رحمہ اللہ "البحر المحيط" (5/ 195-196، ط. دار الكتبي) میں فرماتے ہیں: ابن منیر نے "شرح البرهان" میں فرمایا ہے: اس میں معنوی اشتراک ہے اور وہ ہے '' التواطؤ''(اتفاق اور توافق) کیونکہ آفتاب کا سائے کے نسخ اور نسخِ کتاب کے درمیان ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ''الرفع'' یعنی: کسی چیز کو اٹھا لینا اور ختم کر دیا۔ اور یہ سائے کے نسخ میں تو واضح ہے؛ کیونکہ سایہ اپنی ضد کے آنے کی وجہ زائل ہو گیا، اور نسخِ کتاب میں یہ مقدر ہے، چونکہ تحریر کئے گئے کلام سے استفادہ صرف اصل کتاب سے ہی ہو سکتا تھا اس لئے اصل کتاب کو فائدہ دینے کی خصوصیت حاصل تھی، تو جب اصل کتاب نسخ کر لی گئی تو اس کی یہ خصوصیت اٹھی یعنی ختم ہو گئی، اور اٹھ جانا اور ختم ہو جانا چاہے اصل کا ہو، یا اس کی خصوصیت کا ہو ''رفع'' کے نام میں دونوں برابر ہیں۔
جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ نسخ کا اطلاق زائل کرنے اور اٹھا لینے پر حقیقتاً ہوتا ہے جبکہ نقل کرنے پر مجازاً ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صورتِ اس کے برعکس ہے اور ایک قول یہ ہے دونوں پر نسخ کا اطلاق اشتراک کی وجہ سے ہوتا ہے۔ دیکھیے: ابن نجار کی کتاب "شرح الكوكب المنير" (ص: 462، ط. مطبعة السنة المحمدية).
فقہی اصطلاح میں نسخ: خطابِ شرعی کے ذریعے سے حکمِ شرعی کو ختم کر دینا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ خطابِ شرعی کے ذریعے سے حکمِ شرعی کی مدت کو بیان کر دینا۔ لیکن پہلی تعریف مختار ہے۔ دیکھیے: "شرح الجلال المحلي على جمع الجوامع" (2/ 107-108، وعليه "حاشية العطار"، ط. دار الكتب العلمية).
نسخ کی حقیقت دو چیزوں پر قائم ہے:
پہلی چیز یہ ہے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی وحی کے ذریعے سے شرعی حکم کا ثبوت، جسے انہوں نے اپنے اقوال، افعال اور تقریرات (کسی کام کا پتا چلنے پر اس سے منع نہ کرنا) سے پہنچایا ہے۔
دوسرا: سابق حکمِ شرعی پر عمل کو اس نئے شرعی خطاب کے آنے کے بعد ہمیشہ کیلئے روک دینا جو اس پر عمل کرنے سے روک رہی ہو، یا یہ بیان کر رہی ہو کہ پہلا حکم عارضی تھا جس پر عمل کرنے کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔
امام زرکشی رحمہ اللہ "البحر المحيط" (5/ 197، ط. دار الكتبي) میں تعریفِ مختار کی شرح کرتے ہوئے اور اس کے محترازات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس کی اصطلاحی تعریف میں اختلاف ہے، اور تعریفِ مختار یہ ہے: رفع الحكم الشرعي بخطاب یعنی: کسی خطاب کے ذریعے سے حکمِ شرعی کو ختم کر دینا، حکم سے مراد مکلف پر ثابت ہونے والی ایسی چیز ہے جو پہلے ثابت نہیں تھی۔ حکم پر ''شرعی'' کی قید لگانے سے حکمِ عقلی خارج ہو جاتا ہے؛ جیسے براءتِ اصلیہ سے ثابت ہونے والا مباح، (اس کے نزدیک جس کا یہ مذہب ہے براءتِ اصلیہ سے اباحت ثابت ہوتی ہے) تو اگر اس مباح کے افراد میں سے کسی فرد کو حرم قرار دے دیا جائے تو یہ نسخ نہیں کہلائے گا، اور ہم نے ''بخطاب'' اس لئے کہا تاکہ ادلہ کی تمام وجوہ اس میں شامل ہو جائیں، اور اس لئے بھی کہ اجماع اور قیاس اس سے خارج ہو جائیں؛ کیونکہ ان میں نہ تو نسخ متصور ہو سکتا ہے اور نہ ہی ان کے ذریعے سے نسخ ممکن ہے۔ اور اس لئے بھی کہا تاکہ موت وغیرہ کے ذریعے سے حکم کا اٹھ جانا بھی اس سے خارج ہو جائے؛ کیونکہ یہ بھی نسخ نہیں کہلاتا، اور جس طرح جس کے پاؤں نہ رہیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس آدمی سے پاؤں دھونے کا حکم منسوخ ہو گیا۔ اور جو امام فخر الدين رحمہ اللہ نے "المحصول" میں اسے نسخ کہا ہے ضعيف ہے۔
امام رازی نے کہا ہے کہ شرعی حکم کو عقل کے ساتھ منسوخ کرنا جائز ہے، اور اس پر استدلال انہوں نے محل کے ختم ہو جانے کی صورت سے کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جس کے نہ رہیں مثلا کسی حادثے میں کٹ جائیں تو اس کے حق میں حصولِ طہارت کیلئے پاؤں دھونے کا فرض کا بھی ساقط ہو جاتا ہے۔ آپ "المحصول" (3/ 74-75، ط. مؤسسة الرسالة) میں فرماتے ہیں: اگر یہ کہا جائے کہ اگر عقل کے ذریعے سے تخصیص کرنا جائز ہے تو کیا اس کے ذریعے سے نسخ بھی جائز ہے؟ ہم کہیں گے: جی ہاں۔ کیونکہ جس کی پاؤں نہ رہیں اس سے پاؤں دھونے کا فرض بھی ساقط ہو جاتا ہے اور یہ عقل کے ذریعے سے ہی معلوم ہوا ہے۔
اس میں امام رازی اکیلے نہیں تھے، بلکہ امام ابو اسحاق المروازی نے اہل علم کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے کہ ارتفاعِ شرط یا ارتفاعِ سبب کی وجہ سے حکم مرتفع ہو جاتا ہے اور اسے نسخ کہتے ہیں۔ دیکھیے: "البحر المحيط" للزركشي (5/ 305)، لیکن جمہور علماءِ اصول کا اتفاق ہے کہ نسخ بالعقل (حکمِ شرعی کو عقل کے ذریعے سے منسوخ کرنا) جائز نہیں ہے، محل کے ساقط ہو جانے کو انہوں نے نسخ کی اقسام میں شمار ہی نہیں کیا چہ جائیکہ وہ اسے نسخ بالعقل کہتے۔
تاج الدین سبکی رحمہ اللہ "الإبهاج" (2/ 167، ط. دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں :تقی الدین رحمہ اللہ نسخ بالعقل کے قائل ہیں، اور اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ جس شخص کے پاؤں نہ رہیں اس سے پاؤں دھونے کا حکم منسوخ ہو جائے گا۔ اس قول میں نظر ہے؛ کیونکہ جس کے پاؤں نہ رہے اس سے حکمِ غسل(دھونے کا حکم) ساقط نہیں ہوتا بلکہ غسل پر عدمِ قدرت کی وجہ وجوب زائل ہوا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں اور مزید یہ کہ اس قول کے مخالف نے یہ کہا ہے کہ نسخ کیلئے ضروری ہے کہ طریقِ شرعی کے ساتھ ہو۔
علامہ البانی "حاشيته على شرح المحلي لجمع الجوامع" (2/ 76، ط. دار الفكر) میں فرماتے ہیں: لیکن امام کے کلام میں تناقض ہے؛ اس لئے کہ امام باب النسخ میں فرماتے ہیں: [ضروری نہیں کہ عجز حکمِ شرعی کیلئے ناسخ ہو؛ کیونکہ عجز طریقِ شرعی نہیں ہے]۔ پس عدمِ قدرت کی وجہ سے زوالِ وجوب عقل کی وجہ سے ثابت نہیں ہوا بلکہ خطابِ شرعی کی وجہ سے ثابت ہوا ہے۔ اور یہ خطاب وہ آیاتِ مقدسہ ہیں جو تكليف بما لا يطاق (ایسے کام کی ذمہ داری دینا جسے کرنے کی طاقت نہ ہو) کی نفی کرتی ہیں؛ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے: : ﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا﴾ [الطلاق: 7]، ترجمہ: ''اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی قدر جو اسے دے رکھا ہے، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی کر دے گا''۔ تو جس کا عضو مفقود ہو چکا ہے اس کو اسے دھونے کا مکلف بنانا تكليف بما لا يطاق ہے پس یہ مقصود نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے آیات میں بیان فرمایا ہے۔ اور یہ نسخ بالعقل نہیں، بلکہ اس صورت میں تو حکم متعلق ہونے کا سبب یا شرط کے عدمِ وجود کی وجہ سے حکم سرے سے متعلق ہی نہیں ہوا ہے۔
امام رازی رحمہ اللہ کے استدلال کہ محل کے ختم ہو جانے سے حکم بھی ختم ہو جاتا ہے پر بحث کرتے ہوئے امام قرافی رحمہ اللہ "نفائس الأصول" (5/ 2073-2074، ط. نزار مصطفى الباز) میں فرماتے ہیں: ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ یہ نسخ ہے۔ اس لیے کہ وجوب وہ ہوتا ہے جو امر کی ابتدا میں ثابت ہوتا ہے مگر یہ قدرت واستطاعت، بقائے محل اور دوام حیات کے ساتھ مشروط ہوتا ہے اور شرط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے حکم کا نہ پایا جانا نسخ نہیں ہوتا؛ اس لئے کہ طوالت زماں کے ساتھ ساتھ احکام پر اور محل پر موانع (حکم پر عمل سے باز رکھنے والی اسباب) واقع ہوتے رہتے ہیں، اور اسی طرح عدمِ شرط بھی مانع ہے، اسے نسخ نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی یہ فی نفسہ نسخ ہے؛ اس لئے کہ جو آدمی رمضان میں سفر کرے اس سے نماز اور روزہ منسوخ نہیں ہوتے بلکہ یہ واجب ہی شرطِ اقامت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اور جس عورت کو حیض آ جائے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس سے صوم وصلاۃ منسوخ ہو گئے ہیں، یہ نسخ کا طریقہ نہیں، بلکہ نسخ صرف اس حکم میں ہوتا ہے جو کسی شرط پر قائم ہو اور پھر اس شرط پر قائم نہ رہے یا حکم شرط کے بغیر کسی محل میں ہو اور پھر اس محل میں باقی نہ رہے، حاصلِ کلام یہ کہ نسخ حکم کے ثابت ہو جانے کے بعد ختم جانے کو کہتے ہیں۔ اور یہ احکام اصلِ شریعت میں ان شروط کے ساتھ مشروط ہو کر ہی ثابت ہوئے ہیں، پس کوئی بھی چیز تبدیل نہیں ہوئی کہ اسے نسخ کہا جائے۔
حکم کا محل ہی کبھی فاعل ہوتا ہے اور کبھی مفعول بہ (جس پر تصرف واقع ہو) ہوتا ہے، اور کبھی مفعول فیہ ہوتا ہے (زمان یا مکان)، پس نماز کا وجوب عاقل، بالغ اور قادر مسلمان سے متعلق ہوتا ہے جب تک کوئی شخص ان صفات کا حامل نہ ہو اس پر نماز واجب نہیں ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے نماز منسوخ ہو گئی، بلکہ شرطِ وجوب کے مفقود ہونے کی وجہ سے واجب ہی نہیں ہوئی۔ اگر کسی شخص میں یہ شرائط پوری ہو جائیں تو اس پر نماز واجب ہو جاتی ہے، جب کہ منسوخ شدہ حکم ہمیشہ کے لیے منسوخ رہتا ہے، اگرچہ اس کی شرائط اور اسباب پورے ہو بھی جائیں تو بھی اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔
اور کبھی فاعل موجود ہوتا ہے اور مفعول فیہ موجود نہیں ہوتا۔ جیسے نماز ظہر کے لیے زوال، اور مغرب کی نماز کے لیے غروب آفتاب، کیونکہ نماز اس وقت تک فرض نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا وقت شروع نہ ہو جائے۔
اور کبھی فاعل موجود ہوتا ہے، لیکن مفعول فیہ اور مفعول بہ موجود نہیں ہوتے؛ جیسے: جس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئی ہوں اس سے نماز میں قیام کرنے کا حکم ساقط ہو جاتا ہے۔ کیونکہ محل جو کہ مفعول بہ ہے موجود نہیں ہے۔
علماء نے فرمایا ہے کہ اس مسئلہ میں امام رازی کا اختلاف معمولی سا لفظی اختلاف ہے جس کا مسئلہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔
اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ امام رازی کے یہاں نسخ کا مفہوم وسیع ہے؛ کیونکہ ان کے نزدیک نسخ کا معنی ہے: (مطلق الرفع) یعنی حکم کو مطلقاً اٹھا لینا ۔ کیونکہ یہ لفظ نسخ کی تمام انواع اور محل کے مفقود ہو جانے کے درمیان مشترک ہے اور اس میں دونوں فریقوں کا اتفاق ہے کہ جس کے پاؤں کٹ جائیں اس سے پاؤں دھونے کا حکم ساقط ہو جاتا ہے۔ چاہے اسے یہ کہا جائے کہ اس شخص کے حق میں سقوطِ حکم محل باقی نہ رہنے کی وجہ سے ہے اور یا نسخ بالقل کی وجہ سے ہے، یا زوالِ سبب یا زوالِ شرط وغیرہ کی وجہ سے حکم کا زائل ہو جانا اس کا سبب ہے۔
شیخ عطار رحمہ اللہ "حاشية على شرح المحلي لجمع الجوامع" (2/ 108) میں فرماتے ہیں: گویا آپ نے نسخ کے مفہوم کو وسعت دی ہے، کیونکہ اس سے مراد ان کے ہاں '' مطلق الرفع'' ہے، اور یہ امام کی طرف سے اعتذار پیش کیا جارہا ہے، اور مناسب یہ تھا کہ یقین کا فائدہ دینے والی تعبیر ہو؛ کیونکہ امام کا موقف علماء کرام کی اصطلاح سے عدمِ معرفت کی خبر دے رہا ہے۔
امام زرکشی رحمہ اللہ تعالی "تشنيف المسامع" (2/ 858-859، ط. مؤسسة قرطبة) میں فرماتے ہیں : اور زوالِ سبب کی وجہ سے حکم کا زائل ہو جانا نسخ نہیں ہے لیکن اس کے نام کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے اس میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔
مذکورہ بحث سے پتا چلا کہ اہلِ علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ عقل کے ذریعے سے شرعی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا، اسی پر جمہور علماء کرام کا اتفاق ہے، اور اس مسئلہ میں ہونے والا اختلاف لفظی اختلاف ہے جو اس پر خاطر خواہ اثر انداز نہیں ہو سکتا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas