بیوی کیلئے زبانی وصیت

Egypt's Dar Al-Ifta

بیوی کیلئے زبانی وصیت

Question

مرنے سے پہلے میرے شوہر نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ جو رقم اس کے پاس موجود ہے وہ اس کے مرنے کے بعد میری (بیوی کی) ہو جائے، اور یہ بات وہ بارہا لوگوں کے سامنے کہہ چکے ہیں، اور ہمارے اردگرد کے بہت سے لوگ یہ بات جانتے ہیں، مزید یہ کہ میں بھی زندگی بھر کرتی رہی ہوں اور اپنے پیسے بھی اپنے شوہر کے پیسوں کے ساتھ بینک میں رکھتی رہی ہوں ۔ اس کا کیا حکم ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ بعض علماء کی رائے کے مطابق کسی بھی وارث اور غیر وارث کو وصیت کی جا سکتی ہے، اور یہ وصیت کل ترکے میں سے ایک تہائی کے اندر نافذ کی ہوتی ہے اور اس کے نفاذ کیلئے ورثاء سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی، اور جہاں تک ایک تہائی ترکہ سے زیادہ وصیت کا تعلق ہے، تو اس میں ورثاء کی اجازت درکار ہوتی ہے: اگر وہ راضی ہوں تو اس کا نفاذ کیا جائے گا، اور اگر وہ انکار کر دیں تو اس زیادہ حصے پر عمل نہیں کیا جائے گا، اور اگر کچھ ورثاء رضامند ہوں اور کچھ رضامند نہ ہوں، تو وصیت کے اس زیادہ حصے کا نفاذ انکار کرنے والوں کو چھوڑ کر صرف رضامند ورثاء کے حصوں میں کیا جائے گا۔ اور اس سب عمل کیلئے شرط یہ ہے کہ وصیت کرنے والا مکمل طور پر وصیت کرنے کا اہل ہو اور جانتا ہو کہ وہ کیا وصیت کررہا ہے۔
اس بنا پر اور سوالِ مذکور کے معاملے میں، اور چونکہ شوہر کی وصیت زبانی تھی اور اسے صرف اس کے بیٹے نے ہی سنا تھا: لہٰذا اس کا حکم باقی ورثاء کے پاس اس کے ثابت ہونے پر موقوف ہو گا۔ کیونکہ اس کے نفاذ یا عدمِ نفاذ سے متعلق انہیں کا حق ہے، اگر باقی ورثاء اس بیٹے کی تصدیق کر دیں تو وصیت کل ترکے میں سے ایک تہائی میں نافذ ہو جائے گی اور اس میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جہاں تک ایک تہائی سے زیادہ کا تعلق ہے تو اس کا نفاذ تمام ورثاء کی رضامندی کے مطابق ہو گا جیسا کہ پہلے تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے لیکن ورثاء اگر اس زبانی وصیت کا حامل بیٹے کی تصدیق نہیں کرتے تو اس وصیت کے عدمِ ثبوت کی وجہ سے اس کا نفاذ واجب نہیں ہو گا، بلکہ تمام وصیت ان کیلئے اس کا نفاذ اختیاری ہو گا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas