انتہاء پسند گروہ اور اسلام میں تصور...

Egypt's Dar Al-Ifta

انتہاء پسند گروہ اور اسلام میں تصور جہاد

Question

انتہا پسند گروہوں نے اسلام میں جہاد کے تصور کو کس طرح مسخ کیا؟

Answer

انتہاء پسند جماعتوں نے جہاد کے اسلامی مفہوم کو اس طرح مسخ کیا انہوں نے  اسے اس کے  انتہائی وسیع مفہوم سے تنگ مفہوم کی طرف متقل کر دیا ہے یعنی اس کا وسیع مفہوم ہے اللّٰه کریم کی رضا کے حصول کے لیے اپنی نفسانی خواہشات و شہوات سے لڑنا اور اپنی طاقت و قدرت کو اس میں صرف کرنا ۔جبکہ انتہاء پسند گروہوں نے اس تصور جہاد کو تشدد، زیادتی، قتل اور تخریب کاری جیسے تنگ اور من گھڑت تصور تک محدود کر دیا ہے جس میں یہ لوگ کفار کی طرف بڑھنے سے پہلے اپنے ہی پرامن اور بیگناہ  لوگوں پر چڑھائی کرتے ہیں۔ہاں یہ صحیح ہے کہ شرع میں لفظ جہاد کا اطلاق قتال پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْـهِـمْ ۚ} [التحریم:9] "اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں"، لیکن جہاد اپنی خاص متعدد شرائط کے بغیر درست نہیں، جہاد کو  صرف ظلم وزیادتی کرنے والوں کی جارحیت و استبداد کو روکنے کیلئے مشروع کیا گیا ہے اور اس حد سے تجاوز کرنا ممنوع ہے۔ اس پر دلیل یہ قول باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا﴾ [البقرة: 190] "اور اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑیں اور زیادتی نہ کرو"، اور جب ضرر سےدفاع حاصل  ہو جاۓ تو اس مفہوم ِ یق کے ساتھ جہاد ممنوع ہا جاتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : ﴿وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾ [الأنفال: 61] " اور اگر وہ صلح کے لیے مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ"۔ اور جہاد اپنے وسیع مفہوم میں ہمیشہ باقی رہتا ہے اور ہر مسلمان پر فرض عین ہے، یہ فرض اس سے کبھی زائل نہیں ہوتا سوائے اس صورت کےجب انسان مکلف نہیں  رہتا اور اسی لئے شریعت میں اسے  جہاد اکبر کہا گیا ہے۔

Share this:

Related Fatwas