اسلام میں قتل اور قتال کی اصطلاح میں فرق
Question
اسلام میں قتل اور قتال کی اصطلاح میں کیا فرق ہے ؟
Answer
اسلام میں قتل اور قتال کی اصطلاح میں کئی فرق ہیں ان میں سے پہلا یہ ہے کہ لفظِ قتال ردعمل اور فعل میں دونوں طرف سے اشتراک پر دلالت کرتا ہے اور اس طرفین کی جانب سے تبادل پایا جاتا ہے اس کے برعکس لفظِ قتل کے اس میں یہ مفہوم نہیں ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ اسلام میں قتال ظالم کی شان و شوکت کو توڑنے اور اس کے ضرر کو رفع کرنے کے لیے ہے ناکہ اسے قتل کرنااور نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے اور بعض اوقات قتال کے دوران لوگ مارے بھی جاتے ہیں لیکن یہ قتال کا ہدف نہیں ہے پس جب حملہ آور کی طرف سے ضرر رفع ہو جائے اور اس کی کمرٹوٹ جائے چاہےبغیر قتال کے ہی صحیح تو قتال شرعاً موقوف ہو جائے گا جیسا کہ نبی رحمت ﷺ کا فرمان مبارک ہے :«أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ...» [متفق عليه]، مجھے کافروں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے پس یہاں فعل أقاتل طرفین سے اشتراک اور تبادل پر دلالت کرتا ہے یہاں حدیث میں لفظ ناس سے مراد قریش کے مشرک لوگ اور ان کے آس پاس کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں پر زیادتی کرنے میں پہل کی، اور "أمرت" فعل امر نبی کریم ﷺ کے لیے خاص ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا﴾ "اور قتال کرو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے قتال کریں اور حد سے تجاوز نہ کرو"۔ پس یہاں امرِقتال سے مراد حد سے بڑھ جانے والوں سے قتال ہے تاکہ ضرر رفع ہو جائے اور جب ضرر سے دفاع ہو جاۓ تو اسی آیتِ طیبہ میں اللّٰه کریم ہمیں ان پر زیادتی کرنے سے منع فرما دیتے ہیں۔