تراثی کتب میں موجود جہاد

Egypt's Dar Al-Ifta

تراثی کتب میں موجود جہاد

Question

کیا تراثی کتابوں میں  موجود فقہ الجہاد مستقل شرعی احکامات میں سے ہی یا یہ فقہی مسئلہ ہے جوتغیر کو قبول کرتا ہے؟

Answer

تراثی کتابوں میں موجود فقہ الجہاد ایک فقہی باب میں سے ہے جس کے احکام مجتہد علماء کے اجتہاد کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ جہاد کے احکام میں اس کی مشروعیت کے علاوہ کوئی بھی ثابت یعنی امر متعین نہیں؛ قرآن و سنت کی نصوص کے مطابق جہاد ظالم کے ظلم سے اور حد سے بڑھ جانے والوں کی جارحیت سے بچنے کے طور پر ایک ذریعۂ ثابت ہے۔ اللّٰه کریم نے اپنی آیات میں یوں ارشاد فرمایا: ]اُذِنَ لِلَّـذِيْنَ يُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّـهُـمْ ظُلِمُوْا ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى نَصْرِهِـمْ لَقَدِيْرٌ [(39:الحج) "جن سے کافر لڑتے ہیں انہیں بھی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے"۔

اور یونہی احادیث میں جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے روایت ہے: سئل، أَيُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ» [متفق عليه] سوال کیا گیا کہ افضل عمل کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا اللّٰه کریم پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ اس کی مشروعیت کے ساتھ وہ چند شرائط لازم ہوں گی جن پر فقہاء کا اتفاق ہے اور یہ شروط شریعت مطہرہ کے ثوابت میں سے ہیں جیسے امام کا موجود ہونا اور اس کے حکم کا شامل ہونا۔ جہاں تک اس کی جزئیات کا تعلق ہے تو جس جگہ جہاد واقع ہونا ہوتا ہے وہاں کے حالات کے مطابق ان کو طے کیا جاتا ہے یہ جہاد کی دفعات کا سب سے اہم پہلو ہے اور ان احکام میں سے ہے جن کو ایک مجتہد فقیہ متقن عالم دین زمان و مکان اور احوال کی مناسبت سے طے کرتا ہے اس میں ولی الامر کی سیاسی بصیرت اور اعلیٰ حکمت بھی شامل ہوتی ہے

Share this:

Related Fatwas