قتل وغارت گری کی سرگرمیاں

Egypt's Dar Al-Ifta

قتل وغارت گری کی سرگرمیاں

Question

کیا انتہا پسند گروہوں کی طرح قتل و غارت گری کی کاروائیاں کرنا جائز ہے؟

Answer

یہ کارروائیاں کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ شریعتِ مطہرہ کے ان مقاصد کے خلاف ہیں جن میں اس جان کی حفاظت بھی شامل ہے، جس پر ناحق زیادتی کرنا - قصاص اور زیادتی کرنے والے سے لڑنےکے سوا - اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے،اور جو کوئی یہ عمل کرے گا شریعتِ اسلام کے مطابق اس پر قتلِ عمد کا حکم لگے گا۔ کیونکہ اس نے جان بوجھ ک اور دھوکہ دے کر ناحق کسی کو ہلاک کیا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا ہے: }اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔ } [النساء: 93] اور مسلمان یا کسی غیر مسلم کے قتل کے حکم میں کوئی فرق نہیں ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن سوید کے عذر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس نے مجذر بن زیاد غیلہ کو قتل کیا تھا۔

اور اس میں فساد، خون خرابہ، اور سلامتی و استحکام کو غیر مستحکم کرنے کے معانی بھی پاۓ جاتے ہیں، اس لیے یہ سرگرمیاں اس حرابہ کی اقسام میں اقسام میں آتی ہیں جو اسلام میں حرام ہے، اور مختصر یہ کہ ان جماعتوں کی قتل و غارت کی کاروائیاں دینِ اسلام اور قانون کی رو سے جرم ہیں جن پر سخت ترین سزا دی جاتی ہے۔

Share this:

Related Fatwas