ضعیف اور موضوع حدیث
Question
ضعیف حدیث کیا ہے، اس میں اور موضوع حدیث میں کیا فرق ہے، کیا ضعیف احادیث پر عمل کرنا جائز ہے، اور کس مجال میں جائز ہے؟
Answer
ضعیف حدیث وہ ہے جس میں حدیثِ صحیح یا حدیثِ حسن کی شرائط میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ شرائط مفقود ہوں اور ضعیف حدیث وہ ہوتی ہے جس میں سببِ ضعف راوی کے حافظے میں کمزوری ہو، نہ کہ اس کے عدالت میں طعن کیا گیا ہو کیونکہ جس کی عدالت میں طعن کیا گیا ہویعنی وہ مقدوح فی العدالۃ ہو تو اس کی اس کمی کو پورا نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس حدیث کی متابعت میں حدیثیں رویت کی جائیں گی۔ وہ اس کذاب اور وضاع (اپنی طرف احادیث گھڑنے والا) کی طرح ہے جو جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتا ہے اور اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ” اور جس نے قصداً میری طرف کوئی جھوٹ بات منسوب کی اس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا " متفق عليه ۔ اور اہل علم فرماتے ہیں کہ جس حدیث کا راوی قلیل الضبط راوی ہو یعنی جس کے حافظے میں کچھ کمی ہو تو اس حدیث کے باقی طرق کو ملا کر اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے اور یہ حدیث حسن لغیرہ بن جاتی ہے،اور جب اس کی ضرورت ہو تو اس سے احکامِ شریعت اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اور فضائل اعمال میں عموماً ضعیف حدیث کو لیا جاتا ہے۔ جیسے کہ ایسے ثواب وعقاب کے ساتھ ترہیب وترغیب میں جس کی اصل ثابت ہو، جیسے والدین سے نیک سلوک کرنا، تسبیح، اذکار اور دیگر فضائلِ اعمال۔ جہاں تک موضوع حدیث کا تعلق ہے تو یہ حدیث نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑا گیا ہوتا ہے، اسے صرف یہ بتانے کیلئے روایت کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے، اسے نہ تو فضائلِ اعمال میں لیا جاتا ہے اور نہ ہی شرعی یا احکام میں قبول کیا جاتا ہے۔