دہشتگرد تحریکوں کے نزدیک قرآن کریم کی متشابہ آیات
Question
انتہا پسند فکر کے حامل افراد قرآن کریم کی متشابہ آیات سے کیسے تعامل کرتے ہیں؟
Answer
گمراہی اور خواہش نفس کے پیروکاروں نے لوگوں کا عقیدہ بگاڑنے کیلئے قرآن کریم سے متشابہ قضیے کو لیا اور اس سے اپنے پیروکاروں اور حامیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے استعمال کیا ہے، چنانچہ انہوں نےفتنہ وفساد کی غرض سےاور مادی مقاصد اور دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے قرآن کریم کے معانی میں تحریف کرڈالی، اور اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اس امت میں ایک ایسی قوم ہوگی جو قرآن کریم کی متشابہ آیات میں وہی دعویٰ کرے گی جو مومنین کا محکم آیات میں دعویٰ کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں یاد دلاتے ہوئے فرمایا: سو جن لوگو ں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں، اور ان کا مطلب سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہیں، اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیں۔ [آل عمران: 7]، چنانچہ انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والوں نے متشابہات کی پیروی کی اور انہیں کو اپنایا، اور انہیں اپنا طریق، اپنی دلیل اور ہر دینی و دنیاوی رہنما بنایا۔یہیں سے وہ اپنے تصورات، معاملات اور اپنے تمام احوال میں اپنے اعمال کو جواز فراہم کرتے ہیں اور اپنے جرائم کو مزین کرتے ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ خوارج نے اللہ تعالیٰ کے فرمان{إِنِ الحُكْمُ إِلَّا لله} (''بے شک فیصلہ صرف اللہ کے لیے ہے''۔الأنعام: 57) کے ذریعے تحکیم کو باطل کر نا ہے۔ آیت کا جو اجمالی مفہوم لیا گیا ہے وہ صحیح ہے اور جہاں تک تفصیل کا تعلق ہے تو اس میں بیان اور وضاحت درکار ہے اسی کے لیے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کا رد کرتے ہوۓ فرمایا: "بات تو حق ہے لیکن اس سے مراد باطل لی گئی ہے"