تدریجی اسلوب شریعت کے عظیم مقاصد میں سے ایک ہے۔
Question
انتہا پسندانہ سوچ کی حامل جماعتیں اسلام کو غیر مسلموں پر کیسے پیش کرتے ہیں؟
Answer
تکفیری جماعتیں اسلام کو دوسروں کے سامنے پیش کرنے میں جارحیت، لوٹ مار، ڈاکہ زنی اور قتل و غارت کے طریقہ کار پر انحصار کرتی ہیں، یہ افعال ہر اس شخص کے خلاف کیے جاتے ہیں جو ان کی پیش کردہ اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا اور یہ تعلیمات ان کے نظریات کے مطابق ہوتی ہیں ، یہ ایک غیر سدید منہج ہے جو شریعت میں جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسلام کو لوگوں پر پیش کرنے اور عام کرنے کا صحیح منہج بتایا ہے جو کہ اسلوبِ تدریج، نرمی، اور مال وجان اور عزت کی حفاظت پر مبنی منہج ہے۔ چنانچہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کو معاذ بن جبل کو حکم فرمایا کہ وہ ان امور کی رعایت کریں اور یہ کہ آپ ﷺ نے انہیں اہل یمن کی جس قوم کی طرف بھیجا تھا ان کے حال کے مطابق تبلیغ کریں، کیونکہ وہ اہل کتاب تھے، آپ ﷺ انہیں ان کے اس دین -جس کی تعلیمات ان میں راسخ ہو چکی ہیں- سے نئے دین اسلام کی طرف منتقل کرنا چاہتے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتاتے ہوئے کہ وہ کہاں سے شروع کریں، کس چیز کو مقدم کریں اور کس طرح تبلیغ کریں، ارشاد فرمایا: "تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو سب سے پہلے تم انھیں اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور میں (سیدنا محمد ﷺ) اللہ تعالی کا رسول ہوں (دوسری روایت میں ہے کہ تم انھیں سب سے پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت کریں) اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو پھر انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان میں سے اصحابِ ثروت سے وصول کر کے انہی میں سے فقیر لوگوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو ان کے عمدہ اور قیمتی اموال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیوں کہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔ متفق علیہ۔
اسی کو مراتبِ تشریع میں اسلوبِ تدریج کہا جاتا ہے اور علماءِ کرام قرآن و سنت میں موجود بہت سی دلیلوں سے اس پر استدلال کرتے ہیں اور کتاب و سنت کی نصوص اعتدال اور وسطیت کے منہج پر دلالت کرتی ہیں۔ یہی منہج صحیح اور ربانی منہج ہے۔