حدیث: مجھے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ...

Egypt's Dar Al-Ifta

حدیث: مجھے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔

Question

بہت سے شدت پسند، لوگوں پر زیادتی کرنے کیلئے اس حدیث کا سہارا لیتے ہیں "مجھے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔" کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اس کا کیا معنی ہے؟

Answer

یہ حدیث بہت سے طرق سے نقل ہوئی ہے اور محدثین کے کے تمام طرق نے اسے قوت دی ہے، لفظ "تلوار" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص ہے اور اس شخص کیلئے جو آپ ﷺ کے قائم مقام ہو ۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے  کہ اس سے غیر مسلموں کو زجر و توبیخ کرنااور وہ طاقت و قوت یاد دلانا مقصود ہو جو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو عطا کی ہے۔

یہ حدیث فریضۂ جہاد سے متعلق ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی شرعی نصوص میں جہاد کا خصوصی ذکر آیا ہے، البتہ دیگر مشروع امور کی طرح جہاد کے بھی کئی ضوابط ہیں جیسا کہ اہل علم کو معلوم ہے اور جہاد فرضِ کفایہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اور ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ مسلمان سب کے سب کوچ کریں، سو کیوں نہ نکلا ہر فرقے میں سے ایک حصہ تاکہ دین میں سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو ان کو ڈرائیں تاکہ وہ بچتے رہیں۔ (سورۃ التوبۃ: 122) یاد رہے کہ اسلام اپنا پیغام تمام اہلِ عالم تک پہنچانے میں بہت حریص ہے اور جہاد صرف اس تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاد کا معاملہ اس بات پر منحصر ہے کہ امام ِ وقت اسلام اور اہلِ اسلام کی مصلحت کیلئے جنگ اور امن میں سے کیا اختیار کرتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ مسلمان ہمیشہ جنگ میں رہیں، یا ہمیشہ جنگ بندی میں رہیں۔  اگر غیر مسلموں کو امامِ وقت سے یا اس کی شرائط کے مطابق کسی اور شخص سے امان مل جائے تو اسے پورا کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے، پس ان غیر مسلموں کو پکڑنا یا  کسی شرعی سبب کے بغیر ان کا مال لینا اور ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہے۔

Share this:

Related Fatwas