حدیث: میری امت تقسیم ہو جائے گی۔

Egypt's Dar Al-Ifta

حدیث: میری امت تقسیم ہو جائے گی۔

Question

کیا حدیث "میری قوم تقسیم ہو جائے گی" اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ باقی تمام فرقے – نجات نہ پانے والے – جن کا جہنم میں جانا بیان کیا گیا ہے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہیں؟

Answer

یہ حدیث متعدد طرق سے منقول ہے جو ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں، چنانچہ آئمہ کے ایک گروہ نے اس کے صحیح ہونے کی صراحت کی ہے  بلکہ بعض محدیثن اسے متواتر معنوی تک پہنچا دیتے ہیں۔

تکفیر کی طرف رجحان رکھنے والے بعض افراد نے اس حدیث کا ظاہری مفہوم لیا ہے، اور عقیدہ کے بعض امور سے اختلاف کرنے والوں کو کافر قرار دے دیا ہے، بلکہ فروعات میں اختلاف کرنے والوں کو بھی کافر بنا دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ بنیادی اصول کے مطابق  یہ فرقے امتِ اجابت میں سے ہیں اور ان کی طرف سے اختلاف کا پایا جانا ان کے کفر کا متقاضی نہیں ہے، بلکہ دوسرے تمام گناہوں کی طرح ان فرقوں کو بھی عذاب دیا جاۓ گا، جیسا کہ معلوم ہے، اور "وہ سب کے سب آگ میں ہیں" کا مطلب ہے کہ ان میں سے ہر ایک بقدر عمل دوزخ میں داخل ہوں گے، کیونکہ وہ ایسے عمل کے مرتکب ہوۓ ہیں جو انہیں دوزخ میں ڈالنے کا سبب بنا ہے، اور بعض علماۓ شریعت نے کہا ہے کہ  اللہ تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ وہ  کسی کو بھی عذاب نہ دے۔

حدیث ’’میری قوم تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، وہ سب جہنم میں ہوں گے،‘‘ اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ یہ تمام فرقے دین سے خارج نہیں ہیں۔ کیونکہ ان سب کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نےاپنی امت کہا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تاویل کرنے والا اپنی تاویل میں غلطی کر کے بھی دین سے خارج نہیں ہوتا۔ اور آپ ﷺ کے فرمان: "سوائے ایک فرقے کے" سے مراد وہ ہدایت یافتہ ہیں جو میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت پر عمل پیرا ہیں، وہ اہل علم و فقہ ہیں جو ہر چیز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر قائم ہیں اور وہ تحریف و تغییر کرکے بدعت کے مرتکب نہیں ہوۓ اور امت کی تقسیم وتفریق سے مراد اصول اور عقائد میں تقسیم ہے نہ کہ فروع اور عمل میں۔

Share this:

Related Fatwas